واقعہ نھروان پر اہل کوفہ کا موقف اور پیش آمدہ واقعات – ایاد عبدالحسین الخفاجی

نوٹ: کوفہ یونیورسٹی کے کلیۃ التربیۃ للعلوم الانسانیۃ / کالج برائے علوم الانسانیہ/ہیومنیٹیز کے ریسرچ اسکالر ایاد عبد الحسین الخفاجی کا ایک تحقیقی مضمون جامعہ کوفہ نجف اشرف عراق کے علمی مجلہ جامعہ کوفہ کی جلد 15 اور شمارہ نمبر ایک دوہزار سترہ میں شایع ہوا- اس مضمون کا عنوان ہے’ واقعہ نھروان پر اہل کوفہ کا موقف اور بعد میں پیش آنے والے سیاسی واقعات’ – یہ مضمون مجھے اس لیے اہمیت کا حامل محسوس ہوا کہ ایاد عبدالحسین الخفاجی نے اس مضمون میں واقعہ تحکیم کے بعد کوفہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی حمایت کرنے والوں کی تعداد اور ان کے کردار پر روشنی ڈالی ہے، جس سے یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ یہ جوعمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ حضرت علی کی واقعہ تحکیم کے بعد کوفہ میں حمایت کا عنصر بڑی تیزی سے زوال پذیر ہوا اور اس کے بعد کوفہ والوں پر مسلسل بے وفائی اور غداری کے الزامات کو اسقدر شہرت ملی یا دی گئی کہ ‘کوفی لا یعفوی’ کا مقولہ بھی بن گیا اور اب جب بھی کوفہ کا ذکر کسی کی زبان پر آتا ہے تو کوفہ کے لیےسوائے بے وفائی،دغا بازی، دھوکہ دہی، غداری، منافقت کے سوا کچھ اور نہ تو زبان سے نکلتا ہےاورنہ ہی قلم سے اس سے ہٹ کر کچھ اور لکھا جاتا ہے-

عامر حسینی

ایاد عبدالحسین اپنے مقالے میں لکھتے ہیں کہ اہل کوفہ کی ایک بڑی تعداد نے واقعہ تحکیم پر جناب علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کی تائید و نصرت کی اور انھوں نے اس زمانے میں خوارج اور اہل شام سے حضرت علی کی قیادت میں لڑی جانے جنگوں میں بھرپور ساتھ دیا، جانوںکی قربانیاں بھی دیں۔ یہاں اس مضمون کا ترجمہ و تلخیص پیش کی جارہی ہے- امید کرتا ہوں کہ میری کتاب’ کوفہ: فوجی چھاؤنی سے مسلم سیاسی-سماجی تحریکوں کا مرکز بننے تک’ کے تناظر میں جس بحث کا آغاز میں نے کیا تھا،وہ بحث آگے بڑھے گی
تاریخ میں سامنے موجود حقائق کیسے چند کلیشوں، نعروں اور مغالطوں سے بھرے تصورات سے بننے والے غلط شعور کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتے ہیں، اس کی ایک بڑی مثال کوفہ کے تاریخی حقائق کی ہے- ایاد عبدالحسین خفاجی کوفہ یونیورسٹی نجف اشرف عراق کے ریسرچ اسکالر ہیں- ان کا ایک مضمون جامعہ کوفہ کے رسالے میں چھپا ہے

وہ اہل کوفہ کا کردار نھروان جنگ اور اس کے بعد رونما ہونے والے حادثات کے دوران تاریخی حوالوں سے بیان کرتے ہیں- عربی زبان یہ تحقیقی مضمون سن2017ء میں سامنے آیا تھا- یہ کئی ایک کلیشوں کی ڈی کنسٹرکشن کرتا ہے اور کم از کم ہماری تاریخ کا جو کوفہ اور اہل کوفہ اور علویہ پر ماڈرن ڈسکورس ہے (جب میں ماڈرن ڈسکورس کہتا ہوں تو میری مراد عمومی طور پر نوآبادیاتی دور کا ڈسکورس ہوتا ہے) کو ڈی کنسٹرکٹ /رد تشکیل کرتا ہے اور ایک نیا ڈسکورس فراہم کرتا ہے

نیا ڈسکورس ایک تو سارے اہل کوفہ کو ‘ لا یعفوی/ عہد شکن’ کے ٹیگ اور لیبل سے نہیں دیکھتا اور دوسرا یہ حضرت علی کی پارٹی/حزب/ جماعت/ حامی/شیعہ( اس سے مراد دوسری صدی ھجری سے تیسری صدی ھجری کے دوران تھیالوجیکل اور جیورس پروڈنس/ کلامی و فقہی معاملات میں بہت واضح پوزیشن کے ساتھ وجود رکھنے والے شیعی فرقے نہیں ہیں بلکہ یہ تو پہلی صدی ھجری کی بہت ہی ڈھیلی ڈھالی اور وسیع تر معانی رکھنے والا لفظ ہے-) کو کائر، بزدل، بھاگ جانے والے، اپنے امام اور اپنے لیڈر کو مقتول ہونے کی پوزیشن میں لانے والوں کے طور پر منعکس نہیں کرتا اور نہیں پہلی صدی ھجری کے اس گروہ کی مذمتی شکل کی صورت ٹیگنگ کرکے اسے آج کے جیو پولیٹکل تنازعوں، علاقائی و بین الاقوامی سیاست کے مسائل پر چسپاں کرتا ہے

پہلی صدی ھجری کا کوفہ اور اس صدی ھجری کے شیعہ پر تاریخ کا یہ ڈسکورس عرصہ دراز سے چلے آرہے اس متعصب،فرقہ وارانہ اور کلیشوں پر استوار تاریخ کے ڈسکورس کو ڈی کنسرٹ کر ڈالتا ہے جس کا سہارا لیکر آج مذہبی پراسیکوشن اور نسل کشی تک لیجانے والے نظریات اور خیالات قائم کیے جاتے ہیں- عامر حسینی

واقعہ نھروان عرب مسلمانوں کے درمیان داخلی تنازعوں پر ہونے والے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے جو کہ سن اڑتیس ھجری /659 عیسوی میں پیش آیا- یہ واقعہ اصل میں واقعہ تحکیم کا نتیجہ تھا جو صفین کے مقام پر حضرت علی اور امیر شام کے لشکروں کے درمیان جنگ کے آخر میں پیش آیا تھا- یہ جنگ سن 37ھجری/658 عیسوی میں ہوئی تھی- واقعہ تحکیم سے خوارج بطور جماعت رافضہ کے سامنے آئے تھے- ان کا نعرہ تھا ‘لا حکم الا اللہ’ اور انہوں نے اعلانیہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے علیحدگی اختیار کی اور آپ کو اہل شام سے تنازعے پر ثالثی پر راضی ہونے کے سبب نہ صرف گناہ کبیرہ کا مرتکب قرار دینے کی جسارت کرڈالی بلکہ آپ اور آپ کے ساتھیوں کو دائرہ اسلام سے خارج بھی قرار دے ڈالا اور یہی موقف انھوں نے اہل شام کے بارے میں بھی اختیار کیا

حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے خوارج کے انکار اور انحراف کو اس وقت تک نصحیت اور دلائل و استدلال سے واپس کرنے کی کوشش کی جب تک خوارج نے اپنے سے اتفاق نہ کرنے والے بے گناہوں کا خون بہانا، ان کا اموال لوٹنا اور ان کے ساتھ وہ سلوک کرنا نہ شروع کیا جو حاربین سے کیا جاتا ہے- جب خوارج نے تلوار اٹھالی اور اپنے خیالات کو زبردستی سے مسلط کرنے کی کوشش کی تو حضرت علی نے تب لشکر تیار کیا اور ان سے شدید قتال کیا- اور اس کا سب سے بڑا اور فیصلہ کن معرکہ نہروان کے علاقے میں ہوا،جس میں خوارج کی بڑی تعداد قتل ہوئی

واقعہ تحکیم کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم جب کوفہ واپس لوٹے تو آپ نے اہل شام سے ایک فیصلہ کن جنگ کرنے کا عزم کرلیا اور اس کے لیے تیاریاں شروع کردیں- اور آپ نے 75 ہزار لوگوں کا لشکر اہل کوفہ سے تیار کرلیا- اس میں ستاون ہزار عرب، موالی اور ان کے مالک 8 ہزار(1) جبکہ اہل بصرہ میں سے تین ہزار ایک سو آدمی تھے-(2) اس لشکر کی تعداد بعد ازاں 88 ہزار ایک سو ہوگئی تھی جس میں غالب تعداد اہل کوفہ کی تھی(3)- یہ سارا لشکر حضرت علی کی قیادت میں جاکر کوفہ کے نخلستان میں جاکر بس گیا-(4)
آپ نے اپنے زیر حکومت علاقوں کے گورنروں کو بھی خطوط لکھے اور ان سے بھی کہا کہ وہ بھی اس لشکر میں لوگوں کو شامل ہونے کے لیے کہیں-(5)
حضرت علی اس عظیم الشان لشکر کے امام الجیش تھے اور آپ نے اپنی اسی حثیت میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا
” جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کو چھوڑ دیتا ہے اور اس کام میں سستی سے کام لیتا ہے وہ گویا ہلاکت کے گڑھے کے کنارے پر آجاتا ہے- مگر جو اللہ کی نعمت سے اس گڑھے کا تدارک کرلیتے ہیں وہ ہلاکت سے بچ جاتے ہیں- تو بس اللہ سے ڈرو اور ان سے لڑو جو اللہ سے جنگ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو بجھا دیں- خطا کرنے والوں، بھٹک جانے والوں، اور ستم گر مجرموں سے لڑائی کرو جو نہ تو قرآن کے قاری ہیں، نہ ہی دین کی سمجھ رکھنے والے ہیں اور نہ ان کو علم تاویل آتا ہے-“(6)
آپ جہاں یہ خطاب کررہے تھے،وہاں پر اہل کوفہ کے مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے ایسے لوگوں کا اجتماع تھا جو آپ کے انتہائی مخلص تھے- آپ کی ہمیشہ مدد و نصرت کرنے والے تھے اور آپ کے ساتھ جنگ جمل و جنگ صفین میں شریک رہے تھے- حضرت علی نے بھی اپنے خطاب کے آخر میں ان لوگوں کی محبت و اخلاص اور سعی کی تعریف ان الفاظ میں کی
‘ اے اہل کوفہ! تم میرے بھائی ہو، میرے انصار ہو، اور حق کی خاطر میرے معاون بنے ہو، اور باغیوں کے خلاف جہاد میں تم میرے ساتھ شریک رہے ہو، تمہارے دانا ہونے کی مثالیں دی جاتی ہیں اور میں تم سے امید رکھتا ہوں کہ تم میری کامل اطاعت کروگے-‘(7)
یہ کلمات سن کر وہاں موجود ہر قبیلے اور قوم کے لوگوں نے کلمات محبت اور اطاعت گزاری پر مبنی عہد کو دوہرایا- فصی بن سبیل الشیبانی(8) کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا
‘اے امیر المومنین ہم آپ کا حزب ہیں اور آپ کے انصار ہیں، جو آپ سے دشمنی کرتا ہے ہم اس سے دشمنی کرتے ہیں اور جو آپ اک اطاعت کرے گا ہم اس سے دوستی رکھیں گے'(9)
پھر محرز بن شھاب التمیمی(10) کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے،’ اے امیر المومنین ہم آپ کے شیعہ(پیرو) ہیں اور ہماری امید یہ ہے کہ آپ کی اطاعت کرنا اور جو آپ کا مخالف ہے اس کے خلاف جہاد کرنا ایک صالح عمل ہے اور اس سے ثواب ملتا ہے جبکہ ہمیں خدشہ ہے جو آپ سے الگ ہوکر آپ سے پیٹھ موڑتا ہے وہ ذلیل بھی ہوگا اور اس پر وبال کا شدید خطرہ بھی ہے'(11)
اس کے بعد سعید بن القیس الھمدانی(12) کھڑے ہوئے اور انھوں نے اعلان اطاعت اور نصحیت کیا جبکہ وہ آپ کی دعوت کا اول جواب دینے والوں اور نصرت کرنے والوں میں سے تھے- اس کے بعد وہاں موجود دیگر قبائل کے روساء کھڑے ہوئے اور انھوں نے بھی مدد و نصرت اور مبنی بر اظہار محبت اعلانات کیے-(13)
حضرت علی نے کوفہ کے قبائل کے اندر اس جذبہ وفا اور عزم نصرت کو ملاحظہ کرنے کے بعد گرد و نواح میں آباد قبائل کے سرداروں اور شیوخ کو خطوط لکھ کہا کہا کہ وہ اپنے اعزاء و اقارب اور دوستوں سے کہیں کہ ہتھیار اٹھالیں اور لوگوں اس پر لبیک کہنا شروع کردیا

اس موقعہ پر جبکہ اہل کوفہ کی اکثریت اطاعت و نصرت کے جذبے سے سرشار آپ کے ساتھ تھی تو کوفہ کے اشراف القبائل کے وہ سردار جو پہلے بھی ہوا کے رخ کو دیکھ کر ہی جنگ جمل و صفین میں آپ کے ساتھ گئے تھے ،وہ بھی اس رخ کے سبب آپ کے ساتھ ہوگئے- لیکن یہ وہ وقت تھا جب خوارج کے جرائم کی شروعات کی ہوئی- انہوں نے افعال منکرہ کرنے شروع کرڈالے اور لوگوں کو تنگ کرنا شروع کردیا-(15)
اس صورت حال میں آپ کے لشکر میں سے ایک جماعت کا خیال یہ تھا کہ پہلے خوارج سے جنگ کی جائے اور جب ان سے نمٹ لیا جائے تو پھر شام کی طرف توجہ کی جائے- یہ بات جب حضرت علی تک پہنچی تو آپ نے ان سے کہا کہ ہمیں پہلے شام پر توجہ دینی چاہئیے اور اس کے بعد خوارج سے نمٹنا چاہئیے-(16)
ایسا لگتا ہے کہ خوارج کو یہ بات پتا لگ گئی تھی اور وہ حضرت علی کی حکمت عملی کو بھانپ گئے تھے تو ان کی جانب سے تخریب کاری تیز ہوگئی اور ان کا ایک بڑا حصہ بصرہ کی طرف روانہ ہوگیا ان کی قیادت ‘معسر بن فدکی'(17) کررہا تھا- اور انھوں نے نھروان والا راستا اختیار کیا-(18) راستے میں ان کا ٹاکرا ایک آدمی سے ہوا جو اپنی بیوی کے ہمراہ گدھے پر سوار جارہا تھا- انھوں نے اسے روک لیا اور پھر اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ اس نے بتایا کہ وہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عبداللہ بن خباب الارت(19) ہیں- تو انھوں نے ان سے کہا کہ وہ ان کو اللہ کے رسول کی کوئی حدیث سنائیں- تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا تھا
‘ میرے بعد عنقریب ایک فتنہ رونما ہوگا جس میں آدمی کے دل کی موت ایسے واقع ہوگی جیسے بدن کی ہوتی ہے- ایک آدمی شام کو مومن ہوگا اور صبح ہوگی تو کافر ہوگا

اس حدیث کو سننے کے بعد ان لوگوں نے اسے کہا کہ ہم تجھے ایسے قتل کریں گے جیسا پہلے کبھی نہیں ہوا ہوگا- اور پھر وہ اسے اپنے ساتھ لے گئے- اس کا سارا اسباب لوٹ لیا اور نھروان کے قریب لیجاکر قتل کر ڈالا-(18) پھر ان کی بیوی کو بھی مار ڈالا جوکہ حاملہ تھیں اور ان کا پیٹ ذبح کرڈالا- اسی طرح انھوں نے قبیلہ طئے(یہ حضرت علی کا حامی قبیلہ تھا) کی تین عورتوں کو بشمول ام السنان الصداویۃ(19) (20)کو قتل کردیا- ابن اعثم کوفی(21) نے ایک منفرد روایت میں زکر کیا ہے کہ مسعر بن فدکی نے خود حضرت عبداللہ بن خباب کو قتل کرکے ان کا سر تن سے جدا کرڈالا تھا-(22)
حضرت علی کو جب عبداللہ بن خباب کے قتل اور دیگر واقعات کی خبر پہنچی تو انہوں نے حارث بن مرہ کو العبدی(23) کو اس واقعے کی تحقیق کرکے خبر لانے کے لیے قاصد بناکر بھیجا اور وہ جب وہاں پہنچے اور پوچھ گچھ شروع کی تو ان پر بھی خوارج نے حملہ کیا اور قتل کردیا-(24) جب اس قتل کی خبر کوفہ پہنچی تو اہل کوفہ پر غیظ و غضب نے غلبہ کرلیا اور انھوں نے خوارج سے فوری جنگ کرنے کا مطالبہ کر ڈالا(25)- اور اس پر حضرت علی نے ان کا مطالبہ قبول کرلیا-(26)
البلازری (27) نے اس روایت کو درج کیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے جو حارث وہاں گئے تھے وہ حارث بن مرہ العبدی نہ تھے بلکہ وہ ابن الحارث تھے اور جبکہ حارث بن مرۃ تو سندھ(28) کی سرزمین قیقان میں 42ھجری/662 عیسوی میں قتل(29) ہوگئے تھے- اور ہمیں جن مصادر تاریخ کی اطلاع ہے ان کے مطابق وہ روایت ٹھیک ہے-(30)
حضرت علی المرتضی نے خوارج جن شہروں میں جرائم کا ارتکاب کررہے تھے، ان شہروں میں آپ نے چھوٹے چھوٹے لشکر بھیجے اور ان کی قیادت کرنے والوں سے کہا کہ وہ قصاص و دیت کے قانون کو بروئے کار لائیں اور خوارج سے تخریبی کاروائیوں کو بند کردیں- جیسے آپ نے نھروان قیس بن سعد بن عبادہ کو روانہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ خوارج سے عبداللہ بن خباب اور دیگر مقتولین کے قاتلوں کو ان کے حوالے کرنے اور شرارتوں سے باز آنے کو کہیں- لیکن آپ کی ان کوششوں کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا- خوارج نے آخرکار اپنے آپ کو نھروان اور اس کے گرد و نواح میں جمع کرنا شروع کردیا- اور وہ فیصلہ کن جنگ کی تیاری کرنے لگے- اس سارے عمل کو دیکھتے ہوئے آپ نے آخرکار خود جسر النھروان کے مقام پر خوارج کے لشکر کو جالیا- اور اس موقعہ پر بھی آپ نے خوارج کو راہ راست پر لانے کی بھرپور کوشش کی- ان کو دلیل و استدلال سے قائل کرنے کی کوشش کی لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہوا تو آخرکار جنگ لڑی گئی- اور خوارج کی کمر توڑ کر رکھ دی گئی

اس دوران جب آپ خوارج کی ریشہ دوانیوں کو ختم کرنے میں مصروف تھے اور اہل کوفہ کی ایک بڑی تعداد آپ کا ساتھ دے رہی تھی تو اہل شام کا خیال شاید یہ تھا کہ حضرت علی اور اہل کوفہ اس جنگ میں کامیاب نہیں ہوں گے اور یہ اندرونی چیلنج حضرت علی کی حکومت کا خاتمہ کردے گا- لیکن نھروان کی جنگ میں کامیابی نے یہ اندازے غلط ثابت کرڈالے- اور آپ ایک بار پھر شام والوں سے فیصلہ کن جنگ کی تیاری کرنے لگے

امیر شام اور ان کے ساتھیوں کو اچھے سے اندازہ تھا کہ اگر اہل کوفہ اور دیگر شہروں سے ایک بڑا لشکر تیار ہوکر شام کی سرحدوں پر آن پہنچا تو پھر اپنا اقتدار بچانا بھی مشکل ہوجائے گا- اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے شام والوں نے حضرت علی کی حکومت کے اندر آنے والے علاقوں پر تیز اور سریع چھاپہ مار لڑائیوں کا سلسلہ شروع کیا- ان لڑائیوں کو غارات بھی کہا جاتا ہے- اور اس سلسلے میں پہلا ہدف مصر کو اپنے زیرنگین کرنا تھا اور وہ شامیوں نے کرلیا اور یہاں عمرو بن العاص کو گورنر بنادیا گیا- اس دوران آپ کے دو انتہائی اہم سپہ سالاروں اور سٹیٹس مین کی شہادتیں بھی ہوئیں جن میں محمد بن ابوبکر اور مالک الاشتر شامل تھے- اور مصر کا شامیوں کے زیر نگین آنا بہت بڑا جھٹکا تھا

مصر پر قبضہ کرنے کے فوری بعد شام والوں نے عبداللہ بن حضرمی کو بصرہ روانہ کیا- یہاں پر ابن عباس کوفہ چلے آئے اور وہاں پر زیاد کو چھوڑ کر آئے- عبداللہ بن حضرمی نے بصرہ میں بنی تمیم کے لوگوں میں سے ایسے لوگوں کو ساتھ ملایا جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مظلومانہ قتل کے قصاص کے مطالبے کو اولین طور پر رکھتے تھے اور ان کو حضرمی نے بھڑکایا اور ایک لشکر تیار کرلیا- یہاں آپ کے ساتھیوں نے حضرمی کے بہکاوے میں آنے والوں کو ملامت کی اور ان کو حضرمی کی چال سے باہر آنے کو کہا- حضرت علی کو جب پتا چلا تو انہوں نے اعین بن ضبیعۃ مشاجعی(31) کو ساتھیوں سمیت روانہ کیا تاکہ وہ بنی تمیم کو حضرمی سے الگ کردیں- لیکن نہ ہوسکا اور ان کو غیلہ نے قتل کر دیا-(32)
اس کے بعد حضرت علی نے جاریہ بن قدامہ السعدی(33) کو اہل کوفہ پر مشتمل ایک لشکر دیکر بھیجا تاکہ وہ حضرمی سے لڑیں- حضرمی اس لڑائی میں شکست کھاکر بھاگا اور اپنے ساتھیوں سمیت سنبیل محل میں قلعہ بند ہوگیا- اس قلعہ کو جلادیا گیا اور اس میں ہی حضرمی اور اس کے 70 ساتھی مرگئے-(34)
دوسری شورش اور لوٹ مار ضحاک بن قیس کے زریعے ہوئی، اس کی طرف حجر بن عدی کے ساتھ اہل کوفہ کا ایک لشکر بھیجا گیا تاکہ ضحاک کی سرکوبی ہو جس نے جس نے اہل ثعلبیہ سے لوٹ مار کی اور وہاں پر اپنی کمین گاہیں بناکر اس نے عراق کے علاقوں میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری شروع کردی تھی- حجر بن عدی نے ضحاک اور اس کے ساتھیوں کو قتل کیا اور اہل اوفہ پر مشتمل لشکر کے ساتھ واپس لوٹ ائے

تیسری شورش نعمان بن بشیر نے عین التمر میں کی اور اس کی سرکوبی کے لیے اہل کوفہ کا ایک لشکر عدی بن حاتم الطائی کی سرکردگی میں گیا- اور مخنف بن سلیم بھی 50 افراد کے ساتھ اس لشکر کا حصّہ بنے تھے اور انھوں نے ملکر نعمان بن بشیر کے لشکر کوقتل کیا جوبچ گئے وہ بھاگ گئے اور نعمان بن بشیر بھی شام فرار ہوگیا

چوتھی قتل و لوٹ مار کی مہم سفیان بن عوف آمدی نے انبار میں کی اور یہاں سے لوگوں کا بڑا مال لوٹا اور قتل و غارت گری کرکے وہ واپس شام چلا گیا
اس دوران شام والوں نے ہوٹ مار،قتل و غارت گری کو اور شدید کرنے کے لیے پانچویں غارت گری کی منصوبہ بندی کی اور بسر بن ارطاۃ کو ایک لشکر دیکر بھیجا، اس نے مدینہ ،پھر یمن میں انتہائی خوفناک جرائم کیے- یہاں تک کہ بچوں تک کو قتل کیا جن میں عبیداللہ ابن عباس کے دو بچے شامل تھے- اس کے جرائم کی سرکوبی کرنے کے لیے حضرت علی نے پھر جاریہ بن قدامہ،وھب بن مسعود کی قیادت میں اہل کوفہ کا ایک بہت بڑا لشکر بھیجا، یہ لشکر ابھی وہاں پہنچا بھی نہیں تھا کہ بسر بن ارطاۃ فرار ہوکر شام چلا گیا

یعنی دیکھا جائے تو جنگ صفین کے فوری بعد ایک سال تک تو خوارج کی شورشوں سے نمٹنے میں وقت گزر گیا اور پھر اگلا پورا سال پورے عراق پر اہل شام کی قتل و غارت گری اور لوٹ مار پر مبنی دہشت گردی سے نمٹنے میں گزرا- اور اس دوران ہر بار کوفہ شہر میں آپ کے ساتھیوں اور جانثاروں نے ہی جاکر مہمات سرکیں

ایاد عبدالحسین اس ساری تفصیل کا خلاصہ یوں پیش کرتے ہیں
(الف) اس بحث سے اہل کوفہ کا موقف اور ان کی سیاسی و فوجی پوزیشن واضح ہوجاتی ہے کہ انھوں نے حضرت علی کے ساتھ اپنی جڑت کو قائم رکھا اور ان کی پوری پوری تائید کی – تاریخ کے مختلف حوالوں سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ اس دور میں خوارج اور اہل شام کے حملوں کے خلاف جو علویہ ( حضرت علی کے حامی تھے) نے کردار ادا کیا وہ مدد و نصرت والا اور لشکر و جیوش کو مضبوط کرکے لڑائی میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والا تھا

(ب) خوارج کی شورشیں تھیں جنھوں نے سب سے پہلے اہل شام کے خلاف لشکر کشی اور فیصلہ کن جنگ کا راستا کھوٹا کیا اور پھر اہل شام کی غارات تھیں جس کے سبب اہل شام سے ان کی سرحدوں پر جاکر لڑنے کا جو فیصلہ تھا وہ تاخیر کا شکار ہوگیا

(ج) علویہ جو تھے جن میں سب سے زیادہ تعداد اہل کوفہ کی تھی انہوں نے حضرت علی کی ہر بات کو تسلیم کیا، یہاں تک کہ جب چند لوگ پہلے خوارج سے نمٹنے کی تجویز لیکر آئے تھے تو ان کو بھی حضرت علی نے اس بات پر منالیا تھا کہ پہلے شام والوں سے جنگ کرنا ضروری ہے

(د) اہل کوفہ کی اکثریت نے بالعموم اور علویہ نے بالخصوص جنگ جمل(36 ھجری)، جنگ صفین(37ھجری) ، جنگ نھروان(38 ھجری) اور اہل شام کی پانچ بڑی اجتماعی خوف و ہراس، دہشت اور قتل و غارت پر مبنی مہمات سے نمٹنے میں کلیدی کردار ادا کیا

اس طویل جنگی صورت حال میں بھی آپ اپنی آخری سانس تک شام کے باغیوں سے آخری فیصلہ کن لڑائی لڑنے کے لیے پھر سے لشکر کو تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے- اور اس کام میں علویہ آپ کا تندہی ساتھ دے رہے تھے- اور وہ ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار تھے

اور آخرکار 40ھجری/661ء (26 جنوری/19 رمضان) کو خود حضرت علی پر مسجد کے اندر بوقت نماز فجر حالت سجود میں قاتلانہ حملہ ہوا اور 29 جنوری/21 رمضان المبارک کو آپ کی شہادت ہوگئی

اس لیے یہ کہنا کہ علویہ نے بالخصوص اور اہل کوفہ کی بہت بڑی تعداد نے بالعموم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ساتھ چھوڑ دیا تھا یا ان سے بے وفائی کی تھی بہت بڑا دھوکہ، جھوٹ، مغالطہ آمیزی اور حقائق سے آنکھیں بند کرکے پروپیگنڈا کا حصّہ ہے

حضرت علی کوفہ میں کمزور نہ تھے- بلکہ کوفہ آخری وقت تک آپ کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اہم افرادی قوت فراہم کرتا رہا- یہ چیلنچ چاہے بصرہ میں تھا یا انبار میں یا یمن میں یا کہیں اور کوفہ لشکر کی تشکیل اور لڑائی میں جانیں قربان کرنے کے لیے حاضر رہا

خوارج اور شامی مہمات کا نشانہ خصوصی طور پر علویہ تھے۔ ان سے لوٹ مار ہوئی، ان کو ڈرایا، دھمکایا گیا- قتل بھی کیا گیا- آخر دو سال یعنی 39ھجری سے 40ھجری کے دوران مصر، مدینہ منورہ ،یمن ، انبار،بصرہ، عین التمر سمیت حضرت علی کے کنٹرول والے دیگر علاقوں میں جہاں جہاں اہل بیت سے محبت کرنے والے، ان کے پیروکار اور ان کی طرف جھکاؤ رکھنے والے تھے ان سب کو زبردست دہشت، تشدد، قتل و غارت گری اور نراجیت کا سامنا کرنا پڑا- اور اس دوران آپ سے لڑنے والوں نے کسی اصول اور کسی قدر کی پرواہ نہیں کی

یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ آپ نے اپنے علاقوں میں اٹھنے والے فتنوں کو سب سے پہلے دلیل و استدلال اور اچھے وعظ سے روکنے کی کوشش کی اور جب تک اجتماعی تلوار نہ اٹھائی گئی آپ نے لشکر کشی کرنے سے گریز کیا- اور آپ ایک پائیدار امن قائم کرنے کی کوشش کررہے تھے

آج لوگوں میں عام طور جو بات سب سے زیادہ مقبول ہے وہ یہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم بالخصوص اور امام حسن و امام حسین بالعموم اس لیے عراق، حجاز،مصر اور دیگر علاقے کھوبیٹھے کیونکہ اہل کوفہ اور خصوصی طور پر آپ کے شیعہ/علویہ آپ کا ساتھ چھوڑ گئے- ان کی دھوکہ دہی، بے وفائی سے یہ سب کچھ ہوا- اور اس طرح کا خیال لوگوں میں جو مقبول ہے اس میں کہیں بھی نہ تو اس دہشت اور تشدد اور ستمگروں کے ہتھکنڈوں کا کلیدی رول مانا جاتا ہے جو اس دوران دیکھنے کو ملا اور نہ ہی یہ دکھایا جاتا ہے کہ اصل میں حضرت علی کے حامیوں میں سے اہل کوفہ کے اندر علویہ کا کردار تو بہت ہی درخشاں، بہادرانہ اور جرآت مندانہ تھا جس پر داد اور تحسین دینا بنتی ہے