رنجیت سنگھ ہو یا راجا داہر یا راجا پورس ہو یا جسے آج انڈین سب کانٹی نینٹ کہا جاتا ہے اس کے کوئی اور مقامی حکمران، راجے، مہاراجے ہوں یہ سارے کے سارے ایک دوسرے کے علاقوں کو اپنی سلطنت کا حصہ بنانے یا اُن سے بیاج اور تاوان وصول کرنے کے لیے حملے کرتے رہتے تھے اور جب یہ دیسی و مقامی رجواڑے یا سلطنتیں ایک دوسرے سے تصادم میں آتی تو ہر دو اطراف سے خون بہایا جاتا، کمزور طبقات سب سے زیادہ متاثر ہوتے، عورتیں، بچے، بوڑھے اس کا شکار بنتے اور مخالف کی عبادت گاہوں پر بھی حملے کیے جاتے تھے اور ایک علاقے کے لوگوں کی سائیکی میں کسی حاکم کی لوٹ مار، عورتوں، بچوں اور دیگر کمزوروں پر ڈھائے جانے والے مظالم نقش ہوجایا کرتے اور پھر یہ قصے کہانیوں میں ڈھل جاتے، انگریز کی آمد سے قبل جب مغل ریاست اپنے زوال کی جانب بڑھ رہی تھی تو ہم نے دیکھا کہ کیسے مغل مرکز کے خلاف علاقائی گروہ اپنے اپنے رجواڑے اور چھوٹے چھوٹے خودمختار مرکز بنانے لگے، ان میں ایک طرف تو اودھ اور دہلی کے اندر تورانی افغانی اور ایرانی النسل وزراء اور نوابین کی باہمی رسا کشی تھی جو بعد ازاں شیعہ-سنی رنگ بھی اختیار کرگئی شاہ ولی اللہ سمیت مغلیہ افغانی و تورانی باقیات نے احمد شاہ ابدالی کو بلایا اور دہلی اجڑ گئی
مغلیہ دربار کی اندر اشراف ایرانی، تورانی اور افغانی، راجپوت، برہمن گروہوں کے درمیان طاقت کی رسہ کَشی نے ہی بنگال، پنجاب، سندھ اور دیگر علاقوں میں گروہی ابھار کو جنم دیا اور نسلی و مذھبی مناقشے و منافرت بھی تیز تر ہوگئی
اور اسی دوران افغانی و تورانی نوابوں کی آشیرباد لیکر روھیل کھنڈ نے مغلیہ دربار سے آزاد ہونے کا اعلان کیا تو ایرانی النسل شجاع الدولہ نے مغلیہ دربار کی حمایت سے اور مرہٹوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے تعاون سے اودھ کے علاقوں جن کو روھیل کھنڈ کہا جاتا ہے پر چڑھائی کردی اور یہ غالبا 1773ء اور 1774ء کے سال تھے اور شجاع الدولہ کی فوج نے روھیلہ پٹھانوں جن میں زیادہ تر یوسف زئی، بنگش قبائل شامل تھے اور ان کے حامیوں کا قتل عام کیا اور اس میں شیعہ-سُنی کی تفریق بھی کی اور اسے افغان /پٹھان سنُنی روھیلہ آبادی کا قتل عام بھی کہا جاتا ہے اور اسی کے نتیجے میں ریاست اودھ کا وجود ہوا اور شیعہ نواب اُس کے حاکم بنے یہ سارے واقعات آگے چل کر نوآبادیاتی دور میں لکھنئو سمیت سابقہ ریاست اودھ و برٹش صوبہ جات متحدہ میں فرقہ وارانہ تناؤ کے لیے عمل انگیز ثابت ہوئے
رنجیت سنگھ سمیت سکھ پنجابیوں کی مغلیہ دور زوال کے وقت موجود پنجابی اور پشتون اکثریت کے علاقوں میں حکمرانی اُس زمانے کے اودھ اور دہلی کے اندر قدامت پرست سُنی مسلمانوں کی اشرافیہ میں نفرت کے طور پر دیکھے جانے کا اور دہلی سے تحریک جہاد کے ابھار ہونے کا ایک نسلی سبب بھی تھا اور وہ یہ تھا کہ روھیلہ، افغان پٹھان مسلم اشرافیہ جس میں شاہ ولی اللہ کے خاندان اور اُن کے پوتے شاہ اسماعیل اور سید احمد بریلوی کے خاندان کی بھی افغان اشرافیہ سے قریبی قربت شامل تھی کہ اُن کے افغان و پختون مسلم اشرافیہ سے کافی گہرے رشتے روابط تھے جو پنجاب اور پشتون علاقوں میں آباد تھے اور خود قدامت پرست سُنی مذھبی پیشوائیت بھی افغان باقیات سے جُڑی ہوئی تھی رنجیت سنگھ نے ان دونوں طبقات کو زیر عتاب رکھا، اس لیے یوپی کی اشرافیہ خاص طور پر قدامت پرست سُنی اشرافیہ کے ہاں رنجیت سنگھ ولن رہا
احمد شاہ ابدالی پنجاب خاص طور پر آج کے وسطی پنجاب اور ہندوستان میں شامل پنجاب کے علاقوں میں رہنے والوں کی نفسیات میں ایک لٹیرا، ظالم، خون خوار افغان حملہ آور ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر جو علاقے اُس زمانے میں صوبہ ملتان و صوبہ بکھر میں شامل تھے جہاں درانی افغان نسل بطور حکمران تھی ان علاقوں میں احمد شاہ ابدالی نے نہ لوٹ مار کی اور نہ ہی جلایا کیونکہ وہاں کے درانی حاکم اور مقامی اشرافیہ نے احمد شاہ ابدالی کو اپنا حاکم مان لیا تھا اور خود کو کابل کے تحت رکھنا منظور کرلیا تھا اور جبکہ اورنگ زیب کے زمانے سے پنجابی سکھوں اور میاں میر جیسے ملامتی صوفیا کے پیروکاروں کے اندر باہمی اشتراک سے مغل مرکز کے خلاف جذبات عروج پر تھے
سکھ پنجابیوں نے مغل مرکز کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے عَلم بغاوت بلند کیا اور رنجیت سنگھ کی جب فتوحات شروع ہوئیں تو خود پنجابی مسلمان اشراف میں ایسے گروہ موجود تھے جنھوں نے رنجیت سنگھ کا ساتھ دینے کا فیصلہ اور لاہور کی فتح کے بعد اُن پنجابی اشراف مسلمانوں کو اعزاز، زمینیں اور دربار سے وابستہ بھی کیا گیا، جیسے فقیر خانہ والے تھے اور قزلباش تھے اور میاں میر، شاہ حسین سمیت وسطی پنجاب کے شطاری قادری اور چشتی سلسلے سے وابستہ پنجابی صوفی روایت کے مسلمان تھے انہوں نے رنجیت سنگھ کو خوش آمدید کہا لیکن دوسری طرف خود لاہور، قصور کے گردونواح کی آبادیوں میں بڑی تعداد میں پنجابی مسلمانوں کو لاہور و قصور کے افغان نسل حاکموں کا ساتھ دینے پر سزا دی گئی، لوٹ مار کی گئی، ان کی عورتوں کو قبضہ میں لے لیا گیا، ان واقعات کے سبب بہت سے پنجابی مسلمانوں کی سائیکی میں رنجیت سنگھ لٹیرا، ظالم اور خون خوار ہے جیسے اورنگ زیب جو مختلف نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان عظیم ہیرو سمجھتے ہیں
آج جو سرائیکی اکثریت کے علاقے ہیں وہاں پر زیادہ تر نسلی گروہ اور زاتیں، قبائل افغان حاکموں کے ساتھ شیر وشکر ہوچکے تھے خاص طور پر درانی پٹھان اشرافیہ تو ایک طرح سے مقامی آبادی کے ساتھ انجذاب پذیری کے اس عمل سے گزر رہی تھی جس سے اودھ، دہلی، کی مغل اشرافیہ اور ان کے دربار سے وابستہ افغانی، تورانی و ایرانی اشراف گزار رہے تھے-رنجیت سنگھ کا ملتان پر حملہ ہوا تو اس حملے کی مزاحمت صرف افغان درانی پٹھان نواب مظفر خان نے ہی نہیں کی بلکہ ملتان کے سبھی ہی مقامی ملتانی بولی جو بعد میں سرائیکی کہلائی بولنے والے اشراف نے بھی کی-
ملتان صوبہ کے حاکم نواب مظفر خان اور مقامی آبادی کی زبردست مزاحمت نے رنجیت سنگھ کی فوج کو بڑا نقصان بھی پہنچایا اور اُن کو مشتعل کردیا اور جب ملتان میں سکھ افواج داخل ہوئیں تو انہوں نے حاکم اور اس کے حامی اشراف خاندانوں کے ساتھ ساتھ عام مقامی آبادی کے خلاف بھی خوفناک اقدام اٹھائے ملتان شہر کو جلاکر راکھ کردیا گیا اور بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا اور عورتوں کا ریپ بھی بڑے پیمانے پر ہوا، رنجیت سنگھ کے اس حملے نے ملتان اور اس کے گردونواح کی مقامی آبادی کی نفسیات پر بہت خوفناک اثرات چھوڑے اور یہ نفسیاتی اثر اتنا شدید تھا کہ مقامی بولی جو آج سرائیکی زبان ہے میں رنجیت سنگھ ایک راکھشش اور شیطان اور ظالم و خون خوار کردار بن گیا اور نواب مظفر خان مقامی آبادی کے بڑے حصے کے نزدیک ھیرو، جانباز اور مزاحمت کا استعارہ بن گیا
سرائیکی میں ظلم و ستم اور ایذا رسانی کرنے والے کو مثل پسر رنجیت بھی کہا جاتا ہے
آج کے سرائیکی وسیب میں شامل جو علاقے سابقہ ریاست بہاولپور میں شامل ہیں وہاں پر نواب آف بہاولپور کی حکومت تھی اور نواب آف بہاولپور کو انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی چلارہی تھی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے اشارے پر اور خود نواب آف بہاولپور کو بھی اچھے سے اندازہ تھا کہ رنجیت سنگھ کی فوج کا مقابلہ وہ نہیں کرسکتا تو اُس نے نواب مظفر خان کی درخواست کے باوجود نواب مظفر خان کو مدد فراہم نہ کی بلکہ رنجیت سنگھ کو سالانہ بیاج دینا قبول کرلیا
سرائیکی اجتماعی یادداشت جہاں رنجیت سنگھ کو ولن اور نفرت کے استعارے کے طور پر دیکھتی ہے وہیں پر بظاہر حیرت انگیز طور پر رنجیت سنگھ کے مقرر کردہ گورنر دیوان مول راج کو اچھی نگاہ سے دیکھتی اور اُسے محسن خیال کرتی ہے…. تاریخ ایسی پیچیدگیوں سے بھری پڑی ہے
تو رنجیت سنگھ پنجابیوں مسلمانوں کے نسلی گروہوں ممکی نفسیات میں کہیں ولن تو کہیں ھیرو ہے اور سرائیکی بولنے والے مسلمانوں کے کی اجتماعی یاد داشت میں وہ ظالم خون خوار ہے
پنجابی اور ہریانوی بولنے والے مسلمان جو آج بندوبست پنجاب میں تقسیم کے فسادات کے نتیجے میں آئے ان کی اجتماعی نفسیات میں فسادات کی یاد جس میں ان کے ولن آج کے ہندوستانی پنجاب کے سکھ پنجابیوں کی اکثریت ہے تو وہ بھی رنجیت سنگھ کو ولن مانتے ہیں
قریب 1980ء کی دہائی سے پاکستان کی اسٹبلشمنٹ سکھ پنجابیوں کو دہلی کی حاکمیت سے چل رہی اپنی پراکسی لڑائی میں اہم مہرہ خیال کرتی ہے، اُس نے یہ حکمت عملی خاص طور پر ہندوستانی پنجاب میں خالصستان ایک الگ پنجابی سکھ ریاست کے قیام کے رجحان کے سامنے آنے اور پھر جب ہندوستانی ملٹری نے ہندوستانی پنجاب میں خالصہ عسکری تحریک کو کُچلنے کے لیے یکم جون سے آٹھ جون 1984ء کو آپریشن بلیو سٹار شروع کیا اور گولڈن ٹمپل میں چھپے جرنیل سنگھ وغیرہ کے خلاف کاروائی کی جس سے گولڈن ٹمپل کو سخت نقصان پہنچا اور بعد میں اندرا گاندھی کے اپنی حفاظت پر تعینات سکھ محافظوں کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد دہلی اور ہریانہ میں بہت بڑے پیمانے پر سکھوں کا قتل ہوا اور پنجاب کے اندر سکھ عسکریت پسندوں نے ہندؤ جاٹوں سمیت ہندؤ مت کے ماننے والوں کو نشانہ بنانا شروع کیا اور مرکز دہلی سے سکھوں کی بڑی تعداد متنفر اور ناراض ہونا شروع ہوئی تو اس ساری نفرت اور ناراضگی کو جنرل ضیاء نے تیز کرنے کی کوشش کی اور پاکستانی حکومت نے ہندوستان سمت دنیا بھر میں آباد سکھوں کو پاکستان میں آنے کے لیے خاص طور پر ننکانہ صاحب میں گرونانک کی سمادھی پر اور دیگر سکھوں کے نزدیک متبرک و مقدس اور تاریخی مقامات پر یاترا کو یقینی بنانے میں آسانیاں اور سہولتیں دینا شروع کردیں
پاکستانی اسٹبلشمنٹ خاص طور پر عسکری اسٹبلشمنٹ رنجیت سنگھ سے سکھوں کی یک گونہ عقیدت کو ایکسپلائٹ کرنا چاہتی ہے اور اس کا مقصد ظاہر ہے رنجیت سنگھ کو ایک پراکسی سٹرٹیجک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہے اور شعوری یا غیر شعوری طور پر اس عمل میں رنجیت سنگھ کو پنجابیوں کا ھیرو خیال کرنے والے پنجابی قوم پرست دانشور اور ادیب بھی مددگار ثابت ہورہے ہیں
کئی ایک پنجابی، سرائیکیوں کے ساتھ تقسیم کے وقت مہاجر ہریانوی اور یوپی، سی پی کے ارود بولنے والوں کی اکثریت کی اجتماعی یادداشت رنجیت سنگھ کو ولن کے طور پر دیکھتی ہے تو ان کے خیالات پنجابی قوم پرستوں کو مشتعل کرتے ہیں
سرائیکی یا افغان شاؤنسٹ قوم پرستوں کا رنجیت سنگھ کی پنجابی شناخت کو لیکر سارے پنجابیوں کو گالی دینے جیسی حرکت بھی اس مسئلے کو پنجابی بمقابلہ افغان اور پنجابی بمقابلہ سرائیکی بنا ڈالتی ہے
بہرحال اسٹبلشمنٹ جارج آرویل کے ناول ‘1984ء’ کے مرکزی کردار ونسٹن سمتھ کی طرح یہ جانتی ہے کہ
‘جو ماضی کنٹرول کرتا ہے، وہی مستقبل اور جو حال کنٹرول کرتا ہے وہ مستقبل بھی
لیکن جدید قوم پرستی کا ماضی بارے جو یک نوعی اور ایک جیسی بناڈالنے کا رویہ ہے یہ اسے بار بار تاریخ کے کسی کردار کو ‘ہمہ وقت ہیرو یا ہمہ وقت ولن’ یا ‘سب کے لیے ھیرو یا سب کے لیے’ ولن’ بنانے کا جو رحجان ہے اس سے تاریخ مسخ ہوجاتی ہے
مذھب اور نسل بقول رومیلا تھاپر کے قوم پرستانہ شاؤنزم کے جھنڈے تلے ہمیشہ سینڈیکیٹڈ ازم میں بدل جاتا ہے