اکبر بادشاہ اور جین مت – عامر حسینی

اکبر بادشاہ کو بچپن سے جانوروں سے بہت اُنس تھا اور یہی انس اتنا شدید ہوا کہ اس نے حتی الامکان کوشش کی کہ جانوروں کی جان نہ لی جائے اور اسے جانوروں، چرند، پرند یہاں تک کہ حشرات الارض کو نقصان نہ پہنچانے کا عقیدہ رکھنے والا مذھب جین مت بہت پسند آیا

سریندر پال نے جین مت کے ماننے والوں کی ہندوستان میں آبادی کے بارے میں لکھا ہے

پندرھویں صدی میں لکھا گیا ایک تذکرے سے پتا چلتا ہے کہ جین برادری کے لوگ مالوہ، سندھ، ہریانہ اور پنجاب میں بھی رہتے تھے- ہمیں اسی تذکرے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سم وت یعنی جینی کلینڈر کے مطابق سال 1475 اور سال 1515 کے درمیان سیوتمبرا/جین مت کی شاخ تپ گاچا کے پیشوا نے کجھور کے پتوں پر لکھے ہوئے جین ادب کو کاغذ پر منتقل کرنے کا انتہائی ادق کام اپنے زمہ لے لیا اور جیسلمیر، جوالپور، ڈوگری(دولت آباد مہاراشٹر)، ہےپور اور پٹن میں گرنتھ بھنڈار/کتاب گھر قائم کیے تاکہ وہاں ان کتب کو محفوظ رکھا جاسکے-ایسے گرنتھ بھنڈار منڈپدرگھ مالوہ اور کامبے گجرات میں بھی بنائے گئے تھے

سریندر پال عمومی طور پر مشہور کہ اکبر کا جین مت سے پہلا تعارف ھیرا وجے سوری نے کرایا کو رد کرتا ہے اور اس کے مطابق اکبر سے جو پہلا جین مت کا مونک /مذھبی پیشوا دربار آگرہ میں ملا وہ پدماسندر تھا

پشپا پرشاد کا انگریزی مقالہ ‘اکبر اینڈ دی جینز’ جو عرفان حبیب کی طرف سے اکبر بادشاہ پر لکھے گئے تحقیقی مقالوں کے مجموعے میں شامل ہے جسے آکسفورڈ دہلی انڈیا سے اکبر اینڈ ہز انڈیا کے ٹائٹل سے 1997ء میں شایع کیا گیا تھا

اس میں ہمیں پتا چلتا ہے کہ جینی کلینڈر کے مطابق سال 1639 اور عیسوی کلینڈر کے مطابق سال 1582 تھا جب ھیرا وجے سوریہ اکبر بادشاہ کی دعوت پر آگرہ دربار میں ملنے آیا تھا اور 1587ء یعنی جینی کلینڈر کے مطابق 1644 میں ھیرا وجے سوریا آگرہ سے واپس چلا گیا ھیرا وجے سوریا کی صحبت میں رہ کر اکبر بادشاہ نے پہلے پہل تو کسی بھی طرح سے جانوروں کا مارنا ممنوع قرار دے ڈالا اور پھر قربانی کو اس سے استثنا دے ڈالا لیکن جین مت کے تہواروں کے دوران جانوروں کے زبیحہ پر پابندی لگادی

اکبر بادشاہ کے زمانے میں دہلی، آگرہ سمیت ہندوستان کے کئی شہروں میں جین مت کے ماننے والے آن بسے اور یہ زیادہ تر تجارت پیشہ لوگ تھے

ملتان میں بھی جین مت سے تعلق رکھنے والے تاجروں کی ایک آبادی وجود میں آگئی تھی اور یہ جینی پیشوا بنارسی داس کے پیرو تھے اور اس کمیونٹی کا ایک بڑا تاجر وردھ مان نولکھا ملتان سے آگرہ دربار جاکر اکبر بادشاہ کو ملا تھا ملتان اور لاہور میں جین مت کے بڑے عظیم الشان مندر بھی بنائے گئے

اکبر بادشاہ کو جین مت میں دلچسپی ایک تو اس مذھب میں جانوروں، چرند، پرند کی حفاظت کا عقیدہ، دوسرا اس مذھب کی صلح کل فکر تھی جو اکبر کو اپنی پالیسی کے عین مطابق معلوم ہوئی

اکبر بادشاہ اوائل زمانے میں قدامت پرست بلکہ بنیاد پرست کٹر پنتھی سنی تھا اور اس کی سختی کا یہ عالم تھا کہ اس کو جب پتا چلا کہ امیر خسرو کی قبر کے پاس ہی مرتضی شریف شیرازی یعنی نہج البلاغ کو مرتب کرنے والے شریف رضی شیرازی کے بھائی اور معروف شیعہ عالم کی قبر ہے تو اس نے اس کی قبر کو کھودوایا اور باقیات کو نکال کر پھینک دیا تھا اس واقعہ کا تذکرہ منتخب التواریخ کا مصنف ملا عبدالقادر بدایونی جو اکبر کا سخت مخالف تھا نے بھی مذمت کی تھی-

لیکن بعد ازاں اکبر رفتہ رفتہ قدامت پرستی سے دور ہوتا چلاگیا

اکبر بادشاہ نے اپنے وسطی اور آخری دور میں صلح کل کی پالیسی اپنائی لیکن اس دوران اگر کسی نے مذھب کو بنیاد بناکر مرکز کے خلاف بغاوت کی تو اسے بخشا نہیں، جیسے مہدوی تحریک کے خلاف اس کی کاروائی تھی

اکبر بادشاہ کی صلح کلیت کو اکبر بادشاہ کے قائم کردہ سیاسی و معاشی نظام کی روشنی میں جائزہ جائے تو یہ اس کے نظام کی ضرورت بنتا تھا اگرچہ اس میں قدامت پرستی، کٹھ ملائیت کی انتہاپسندی کے ردعمل میں ایک دوسری انتہاپسندی بھی دیکھنے کو ملی جس سے قریب قریب سبھی مذاھب کے قدامت پرست مذھبی جنونیوں کو اور قدامت پرست انتہا پسند ملائیت کو صلح کلیت کو ہی رد کردینے کی ہمت ملی

پروفیسر عرفان حبیب کی مرتب کردہ کتاب 1992ء میں اکبر بادشاہ کی 450 ویں سالگرہ کے موقع پر علی گڑھ یونیورسٹی میں قائم سنٹر آف ایڈوانس اسٹڈی ان ہسٹری میں منعقدہ ایک تقریب میں پڑھے جانے والے مقالوں پر مشتمل ہے-

ان مقالوں کا اردو ترجمہ پروفیسر ریاض صدیقی نے کیا جسے پروف کی بے تحاشہ اغلاط اور کئی جگہوں پر تو کسی واقعے کی تاریخوں میں ہی ادل بدل ہے اور پروف کی ایسی غلطیاں بھی ہیں جس سے مطلب ہی فوت ہوگیا

اس کتاب کا سرورق پر عنوان ‘شہنشاہ اکبر’ عرفان حبیب لکھا ہوا ہے جس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ کتاب کے مدیر نہیں بلکہ مصنف ہیں اور کتاب شہنشاہ اکبر کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے

کیا اس کتاب کا ترجمہ کرنے سے پہلے آکسفورڈ پریس انڈیا اور اس کتاب کے مدیر عرفان حبیب سے اجازت لی گئی؟ کیا انھوں نے اس کا اردو ترجمے والا ڈرافٹ دیکھا تھا؟ اگر ان سے اجازت لی گئی ہوتی اور ان کو ڈرافٹ دکھایا گیا ہوتا تو وہ اس حالت میں کتاب کی اشاعت پر کبھی راضی نہ ہوتے
میں نے پشپا پرشاد کے مضمون کے ترجمے کو اصل متن سے ملاکر دیکھا تو انگریزی متن میں سلاست، شستگی اور روانی کو اردو میں منتقل ہوتے نہ پایا کہیں کہیں جملوں کا ربط بھی ٹوٹ گیا

اردو میں ترجمہ کے پروف اور پھر اس ترجمے کے لیے ایک باقاعدہ ایڈیٹر کی اشد ضرورت ہمیشہ سے محسوس کی جاتی رہی ہے لیکن اس طرف توجہ ہی نہیں کی جاتی

اندر جاکر لکھا گیا کہ پروفیسر عرفان حبیب اس کتاب کے مرتب کرنے والے ہیں

حسب سابق کہیں بھی کتاب کا اصل نام تحریر نہیں کیا گیا

اردو ترجمے میں فاش اغلاط کی بھرمار ہے، کیونکہ پروف ریڈنگ تو اس اشاعت گھر کی کبھی ترجیح رہی نہیں ہے اور کئی جگہوں پر تو غلطیاں ایسی ہیں کہ مطلب ہی غتر بود ہوجاتا ہے-

پشپا پرشاد کے مقالے کا ترجمہ کرتے ہوئے ہم ص139 پر یہ پڑھتے ہیں کہ ہیرا وجے سوری کو اکبر بادشاہ نے 1582ء میں آگرہ بلایا… جبکہ ص 141 پر لکھا کہ 1535ء میں ھیرا وجے سوری آگرہ سے گجرات چلا آیا تھا یہ بڑا تضاد ہے، پروف ریڈنگ ٹھیک سے ہوتی تو یہ غلطی نہیں ہونی تھی گجرات جانے کا سال 1587 تھا ناکہ 1535ء