تکثیریت اور تنوع پر مبنی اسلام – ڈاکٹر جواد سید

تکثیریت یا پلورل ازم کسی معاشرے کی وہ کیفیت ہے جس میں مختلف مذہبی، لسانی، معاشرتی اور ثقافتی فرق موجود ہوں اور سب لوگ مشترکات کی بنیاد پر آپس میں مل کر مجموعی ترقی کا راستہ اختیار کیا جائے – تنوع یا ڈائیورسٹی کا مطلب ہے کہ ہر معاشرے میں مذہب، رنگ، نسل، جنس، زبان وغیرہ کی بنیاد پر لوگوں میں فرق موجود ہوتے ہیں اور سب کا حق ہے کہ کسی بھی طرح کی تفریق اور تعصب کے بغیر سب کو یکساں حقوق اور سہولیات میسر ہوں

دنیا میں آج تقریبا ایک ارب اسی کروڑ مسلمان ہیں،مسلمان ممالک کی تنظیم او آئ سی میں ستاون ممالک ہیں، مسلمانوں میں داخلی تنوع یا تکثیریت کی بہت سے شکلیں ہیں، مسلمان نہ صرف متعدد فرقوں سنی، شیعہ، صوفی، اباضی وغیرہ میں بٹے ہوۓ ہیں بلکہ مختلف فقہوں جیسا کہ حنفی، جعفری، مالکی، شافعی اور حنبلی یا غیر مقلدین یا سلفی کی شکل میں بھی موجود ہیں – اس کے علاوہ فرقوں اور مسالک کے اندر مزید تنوع موجود ہے جیسا کہ حنفیوں میں بریلوی اور دیوبندی اور غیر مقلدین میں اہلحدیث، سلفی، اہل تشیع میں اثنا عشری، زیدی، علوی، بوہری، آغا خانی وغیرہ – مخلتف علاقوں کی مقامی روایات نے بھی اسلامی تعبیرات اور رسومات پر بھی اپنا واضح اثر چھوڑا ہے – مشرق وسطی کے عرب ممالک اور غیر عرب ممالک (جیساکہ ایران اور ترکی) اور اس کے علاوہ افریقہ، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں بسا اوقات ایک ہی فرقے سے تعلق رکھنے والے مسلمان مختلف اسلامی رسوم اور روایت پر عمل پیرا ہوتے ہیں – یہ اسلامی تنوع پوری شدت اور خوبصورتی کے ساتھ ہمیں حج کے موقع پر کروڑوں مسلمانوں کے مجمع میں نظر آتا ہے، جو چند مشترکات کے علاوہ اپنے اپنے طریقے سے نماز اور دیگر عبادات انجام دیتے ہیں، یہی تنوع انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اس دور میں مختلف ممالک اور سماجی گروہوں میں اسلام کی مخلتف رسومات کی شکل میں بھی دیکھا جا سکتا ہے –

آج کے دور میں اگر کوئی عالم، مصنف یا مقرر اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ فقط اس کا فرقہ، فقہ، مسلک، عقیدہ یا تعبیر ہی خالص یاحقیقی اسلام ہے اور اس کے علاوہ دیگر تمام راستے غیر خالص ہیں، کم خالص ہیں، اصلی اسلام سے گریز پر مبنی ہیں یا اسلام کے متوازی ایک علیحدہ دین ہیں (مثال کے طور پرایک ‘متوازن عالم’ تصوف کو اسلام کے متوازی ایک دین قرار دیتے ہیں)، تو در حقیقت وہ شخص اسلامک ڈائیورسٹی اینڈ پلورل ازم یا اسلامی تنوع اور تکثیریت کا انکار کرتا ہے اور عدم برداشت، تکفیر اور متشدد رویوں کی راہ ہموار کرتا ہے – امر واقعہ یہ ہے کی امریکہ پر ہونے والے گیارہ ستمبر حملوں کو بعد سے آج تک دنیا میں اسلامی انتہا پسندی کی جو نمایاں تنظیمیں وجود میں آئی ہیں اور پاکستان، افغانستان اور انڈونیشیا سے لے کر سعودی عرب، مصر، برطانیہ، بلجیم اور امریکہ تک دہشت گردی کے جو واقعات ہیں ان میں غالب اکثریت ان افراد یا تنظیموں کی ہے جو تکفیری و خارجی نظریات سے متاثر ہیں اور اپنے مزعومہ ‘خالص’ اسلام کی تلاش میں غیر مسلموں اور مسلمانوں (بشمول سنی اور شیعہ مسلمانوں) پر حملے کرتے ہیں، اولیا الله کے مزاروں پر بم دھماکے کرتے ہیں اور میلاد، عاشورہ اور کرسمس کے اجتماعات پر حملے کرتے ہیں

بجاۓ اس لا حاصل اور خطرناک جستجو کے کہ باقی تمام فقہوں، فرقوں یا مسالک کو ہم اپنی من پسند تعبیر اور نظریات پر تولیں اور تاریخ و حدیث کی لا یعنی اور بسا اوقات غیر سائنسی، چنندہ اور غیر متوازن بحثوں میں الجھ کر دوسروں کو اپنے نظریات یا عقائد میں بدلنے یا کنورٹ کرنے کی کوشش کریں،ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی تنوع کو کھلے دل اور خوش اسلوبی کے ساتھ تسلیم کیا جائے – اظہار اختلاف کی بجائے مشترکات پر زور دیا جائے، اختلافی امور کو فقط اہل علم پر چھوڑ دیا جائے، ایسا اختلاف شاز اور علمی ہو، شائستگی اور باہمی احترام پر مبنی ہو اور تشدد اور ہتک کاشائبہ بھی اس میں نہ ہو –

تکثیریت اور تنوع پر مبنی اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ کسی ایک مزعومہ ‘خالص’ اسلام کی تلاش اور بحث کو خیر باد کہا جائے اور چودہ سو سالوں سے موجود اختلافات کو کھلے دل سے قبول کیا جائے – باہمی بھائی چارے، امن اور ترقی کے لئے بنیادی اسلامی مشترکات پر زور دیا جائے جیسا کہ توحید، قرآن، ختم نبوت اور اہلبیت کی عظمت، یہ تمام نکات تمام مسلمہ اسلامی فرقوں اور مسالک میں مشترک ہیں اور ان کی اساس پر ایک تکثیری اسلامی معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے – ان مشترکات پر اس سے قبل اپنے اپنے انداز میں ڈاکٹر علی شریعتی، علامہ اقبال، ڈاکٹر مقتدر خان اور دیگر سکالرز بات کر چکے ہیں –

اسلامی وحدت اور اتفاق کا مطلب یہ نہیں کہ سب فرقے یا فقہیں ایک ہو جائیں یاسب لوگ ایک ہی عقیدے، فقہ یا تعبیر پر متفق ہو جائیں، ایسا ہونا ناممکنات میں سے ہے اور اس طرح کی لا حاصل جستجو درحقیقت فرسٹریشن اور عدم برداشت کو جنم دے سکتی ہے – فرقوں اور مسالک کی بنیاد پر مسلمانوں میں اختلافات ایک تاریخی اور عالمی حقیقت ہیں، بالفاظ دیگر اسلامی تنوع یا ڈائیورسٹی ایک حقیقت ہے جبکی قبولیت، شمولیت وجاذبیت یعنی انکلوژن ایک رویہ ہے، علما اور مقررین کا فرض ہے کہ تنوع کی حقیقت کی تسلیم کریں اور شمولیت و محبت پر مبنی رویوں کی تعمیر کریں – حکومت اور ارباب اختیار کی ذمہ داری ہے کہ ایسے مواقع اور ادارے فراہم کیے جائیں جیسا کہ میڈیا، سکول، کالج، یونیورسٹی، پارلیمنٹ، ریسرچ سنٹر، مساجد اور مدارس جہاں پر مخلتف فرقوں اور فقہوں کے لوگ آپس میں مل بیٹھیں، ایک دوسرے کے خیالات اور روایات کو، غیر مناظرانہ انداز میں، بہتر طور پرسمجھنے کی کوشش کریں اور مشترکات پرتوجہ دے کر یگانگت کا ماحول پیدا کریں، حکومتوں کا فرض ہے کہ مذہب، فرقے یا فقہ کی بنیاد پر نفرت انگیز یا توہین آمیز گفتگو کے خلاف قانون سازی کرے اور اس قانون پر مکمل عملدرآمد کرے – اسلامی اتفاق اور ہم آہنگی کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کے عقائد، تعبیروں اور مذہبی رسومات کو کھلے دل سے قبول کیا جائے اور من پسند خالصیت کی تلاش سے گریز کیا جائے – اہل علم اور اہل منبر کو تکثیریت اور تنوع پر مبنی اسلام کو فروغ دینا چاہیے – مسلمانان عالم کے لئے یہی رستہ امن، ترقی اور بہترمستقبل کا راستہ ہے