مارکو پولو کی کارستانی

حسن بن صباح اور اس کی جنت کی کہانی مشہور کرنے میں سب سے نمایاں کردار مارکو پولو نے ادا کیا۔ یہ وہ اطالوی سیاح تھا جس کا سفرنامہ دنیا کی مشہور ترین کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کتاب میں مارکو پولو نے لکھا ہے:

‘شیخ الجبال (حسن)نے دو پہاڑوں کے درمیان واقع وادی میں ایک وسیع و عریض اور خوشنما باغ بنوایا ہے جس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ اس میں ہر قسم کے پھل پائے جاتے ہیں اور تصور سے باہر حسین محلات اور خیمے ہیں جن پر سونے کے ورق چڑھے ہیں اور ان میں نفیس تصاویر ہیں۔ اس باغ میں چھوٹی چھوٹی ندیاں ہیں جن میں شراب، دودھ، شہد اور پانی بہتا ہے، اور یہاں دنیا کی حسین ترین دوشیزائیں ہیں جو ہر طرح کے ساز بجاتی ہیں اور وہ حسین نغمے گاتی ہیں اور دل لبھانے والے رقص کرتی ہیں۔’

مارکو پولو مزید لکھتے ہیں کہ 12 سے 20 برس عمر کے نوجوانوں کو نشہ پلا کر اس باغ میں لایا جاتا ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جنت میں پہنچ گئے ہیں۔ اس کے بعد جب انھیں بے ہوش کر کے اس فردوسِ بریں سے نکالا جاتا ہے تو وہ اپنی زندگی کی پروا کیے بغیر کسی کو بھی قتل کرنے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

مارکو پولو کا سفرنامہ اپنے دور کا ‘بیسٹ سیلر’ ثابت ہوا اور اس کی وساطت سے یہ کہانیاں یورپ بھر میں پھیل گئیں، جو آج تک کسی نہ کسی شکل میں دہرائی جاتی ہیں۔

اس دوران کسی نے یہ نہ سوچا کہ مارکو پولو جب 1272 میں چین جاتے ہوئے اس علاقے سے گزرے، تب حسن الصباح کو فوت ہوئے تقریباً ڈیڑھ صدی اور منگولوں کے ہاتھوں قلعۂ الموت کو تباہ ہوئے 15 برس گزر چکے تھے۔

دوسری طرف کچھ جدید مورخین نے کہا ہے کہ مارکو پولو چین تو کجا، ترکی سے آگے تک گئے ہی نہیں تھے اور انھوں نے ساری کہانیاں استنبول میں بیٹھ کر سیاحوں اور ملاحوں سے سن سنا کر لکھ ڈالیں۔

لیکن یہ افسانہ مارکو پولو کی ایجاد نہیں ہے۔ اس زمانے میں حسن الصباح اور قلعہ الموت کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں گردش میں تھیں، انھوں نے کہیں سے ایسی ہی کوئی اڑتی اڑتی خبر سن کر اسے تحریر کر دیا جس کے بعد یہ کہانی دنیا بھر میں ‘وائرل’ ہو گئی۔

عبدالحلیم شرر کے 1899 میں شائع ہونے والے مشہورِ زمانہ ناول ‘فردوسِ بریں’ میں بھی حسن بن صباح کی مصنوعی جنت کا ڈرامائی احوال بیان کیا گیاہے

ہم نے ہلاکو خان کے درباری مورخ عطا ملک جوینی کی ‘تاریخِ جہاں گشا’ کا ذکر کیا تھا۔ جوینی حسن الصباح اور اسماعیلی مسلمانوں کے سخت دشمن تھے، اس لیے ان سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ان سے کسی قسم کی رو رعایت برتیں گے۔

ہلاکو خان نے جب 1256 میں قلعہ الموت فتح کیا تو جوینی ان کے ساتھ قلعے پہنچے۔ وہ بڑی تفصیل سے حسن الصباح کے حالاتِ زندگی، ان کے نظریات، الموت کی تاریخ، وہاں کے حکمرانوں، عمارات، طرزِ تعمیر اور کتب خانوں کا احوال بیان کرتے ہیں، لیکن ان کی کتاب میں کہیں بھی کسی جنت یا اس کے آثار کا ذکر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔

ہم اس دور کے ایک اور مشہور تاریخ دان رشید الدین ہمدانی کا ذکر کر چکے ہیں۔ ان کی سنہ 1307 میں مکمل ہونے والی کتاب ‘جامع التواریخ’ کو اس دور کے ایرانی تاریخ پر سند تسلیم کیا جاتا ہے، مگر وہ بھی حسن الصباح اور قلعہ الموت کا تفصیلی ذکر کرنے کے باوجود وہاں کسی جنت کے وجود سے واقف نہیں ہیں۔

‘شیخ الجبال’ کے بارے میں کئی اور کہانیاں، روایتیں اور افسانے بھی گردش میں ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک دن کسی ملک کا سفیر الموت آیا ہوا تھا اور اس نے اپنے حکمران کی کیل کانٹے سے لیس فوجوں کی ہیبت کے بارے میں ڈینگیں مارنا شروع کر دیں۔ حسن الصباح نے کہا، ‘ٹھیرو، میں تمھیں دکھاتا ہوں کہ اصل سپاہی کیا ہوتا ہے۔’

وہ اسی وقت سفیر کو قلعے کی چھت پر لے گئے اور وہاں تعینات دو محافظوں میں سے ایک سے کہا کہ ‘چھت سے کود جاؤ،’ اور دوسرے کو حکم دیا، ‘اپنا خنجر نکال کر اپنے دل میں پیوست کر دو۔’ کہا جاتا ہے کہ جب ایک محافظ بلا چوں و چرا قلعے کی بلند فصیل سے کود گیا اور دوسرے نے خنجر اپنے سینے میں گھونپ دیا تو سفیر پر وہی ہیبت طاری ہو گئی جو اس نے اپنی زبردست فوج کے ذکر سے حسن پر طاری کرنا چاہی تھی۔

چرس کے نشے میں دھت؟

یہ بھی مشہور ہے کہ انگریزی کا لفظ assassin یعنی اہم شخصیات کا قاتل بھی حسن الصباح ہی کے اس دور کی پیداوار ہے کہ کیوں کہ وہ اور بعد میں آنے والے ان کے جانشین فدائیوں کو حشیش (یعنی چرس) کے نشے میں دھت کروا کر قاتلانہ مہمات پر بھیجا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس فرقے سے تعلق رکھنے والوں کو حشیش کی نسبت سے حشاشین کہا جاتا تھا، جو مغرب میں پہنچ کر اسیسن بن گیا۔

تاریخ کی کسی کتاب ہم عصر میں اس بات کے شواہد نہیں ملتے کہ حسن الصباح یا ان کے پیروکار کسی قسم کی نشہ آور ادویات کا استعمال کرتے تھے۔ معروف تاریخ دان برنارڈ لیوس کے مطابق اس دور کے اسماعیلیوں کے لیے لفظ ‘حشاشیہ’ (حشیش پینے والا) کی اصطلاح دراصل اس لیے استعمال ہوتی تھی کہ دوسروں کو ان کے خیالات بہکے بہکے لگتے تھے، نہ کہ خود حشیش پینے کے باعث۔

کٹر انصاف پسندی

حسن الصباح بےحد ذہین سیاسی رہنما اور منتظم تھے۔ ان کے سیاسی و نظریاتی مقاصد کے حصول کے لیے نظریہ بھی درکار تھا اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے تنظیم بھی۔ انھوں نے یہ دونوں کام کر دکھائے۔
ان کی کٹر انصاف پسندی کی مثال یہ پیش کی جاتی ہے کہ جب قانون کا معاملہ آیا تو انھوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو بھی نہیں بخشا، ایک کو شراب پینے کی پاداش میں اور دوسرے کو قتل کے جرم میں مروا ڈالا۔
حسن الصباح کا انتقال 12 جون 1124 کو ہوا۔ چونکہ ان کی نرینہ اولاد زندہ نہیں بچی تھی، اس لیے انھوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنے ایک وفادار داعی کِیا بزرگ امید کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا جنھوں نے ایک عرصہ قلعۂ الموت پر حکومت کی۔ یہ سلسلہ 1256 تک چلتا رہا، تاوقتیکہ منگول حکمران ہلاکو خان نے الموت کو فتح کر کے اس نزاری اسماعیلی ریاست کا خاتمہ کر ڈالا۔

حسن الصباح کی زندگی اس لحاظ سے بےحد دلچسپ ہے کہ اس پر طرح طرح کے افسانوں کی دبیز دھند چھائی ہوئی ہے جس میں ان کی اصل شخصیت کہیں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ زمانے کی یہ ستم ظریفی بھی دیکھیے کہ اس نے ان کا اصل نام بھی بدل کر حسن بن صباح مشہور ہو گیا، حالانکہ ان کے والد کا نام صباح نہیں بلکہ علی تھا۔

تاہم اساطیری دھند کے پردے چاک کر کے دیکھا جائے تو ایک ایسے شخص کی تصویر سامنے آتی ہے جو صاحب میدان بھی تھا اور صاحبِ کتاب بھی، جنھوں نے نہ صرف زبردست عسکری و سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا بلکہ علمی و عقلی میدان میں بھی ان کا شمار اپنے دور کے اہم دانشوروں میں ہوتا ہے۔ اس کا اعتراف ان کے بدترین مخالفین نے بھی کیا ہے۔

حسن بن صباح کی جنت، فسانہ یا حقیقت؟
ظفر سید
بی بی سی اردو