اہلسنت کے لبادے میں ناصبی خارجیت کا فتنہ


آجکل سوشل میڈیا پر تکفیری دہشت گردتنظیموں اور خارجی نظریات کے حامی خوارج سرگرم ہیں اور امت مسلمہ میں فرقہ وارانہ نفرت پھیلا کر پاکستان کو لیبیا ، عراق اور شام کی طرح تباہ کرنے کی ناپاک خواہش رکھتے ہیں، ان میں سے بعض بد بخت میلاد النبی صلی الله الیہ والہ وسلم، عاشورہ محرم ، مولا علی کرم الله وجہ اور حسنین کریمین کی اہانت میں نہایت تکلیف دہ باتیں لکھ کر مسلمانوں کے تمام فرقوں اور مسالک کو دکھ پہنچاتے ہیں اور اس طرح خارجی ٹولے کی سازش پروان چڑھاتے ہیں

ان میں سے بعض بہروپیوں کو ہم خارجیت جدید کے سکالر کہ سکتے ہیں اور اگر اس کو ذ را زیادہ وضاحت سے بیان کریں تو وہ اصلاحی اور رفاہی کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور اس مکتبہ فکر کے بارے میں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ ” قرآن کریم ” کی عثمانی ترتیب کو ” خدائی ، الہامی اور توفیقی ترتیب ” خیال کرتے ہیں اور یہ ” نزولی اور تاریخی ترتیب ” کے سب سے بڑے مخالف ہیں – یہ مکتبہ فکر تاریخ سے بہت زیادہ دشمنی رکھتا ہے اور اپنی مرضی سے تاریخ کی تدوین نو کرنے کا خواہاں ہے جس میں اموی اور یزیدی راویوں اور درباری تاریخ نویسوں کو ترجیج دیتا ہے – اپنی تقریروں اور تحریروں میں یہ لوگ ” تاریخ ” پر ہی ایک ژطلق فلسفہ جھاڑتے ہیں اور ” تاریخ کو کنفیوژن پھیلانے والی اور حکمت سے خالی قرار دیتے ہیں – ایسا شخص جہاں پر ” تاریخ ” کے واقعات کی وہ تعبیر جو ان کے تاریخ دشمن ذہن کو سپورٹ نہیں کررہی تو وہ تاریخ کے اس بیانیہ کو رد کرتا ہے اور ”قرآن ” کے اندر ” تاريخی واقعات ” کے بیان کی ” اے ہسٹاریکل ” تعبیر کرتا ہے — اور زرا دیکھئے کہ اب جب وہ واقعہ کربلا اور امام حسین کی شہادت کا تجزیہ کرتا ہے تو اب کیونکہ واقعہ کربلا حضور علیہ الصلوات والتسلیم کی وفات اور ” قرآن ” کے نزول کے بعد ہوا اور اس کا زکر تو قرآن کی نصوص قطعی سے مل نہیں سکتا اور اس کی ” اپنی من مانی اے ہسٹاریکل ” تعبیر کی نہیں جاسکتی تھی اور ایسی تعبیر جس سے وہ صوفی سنی اور شیعت پر من گھڑت الزامات لگا سکتا جس کی خواہش نواصب کی تقریر میں نظر آتی ہے –
ان تقریر وں سے پتہ چلتا ہے کہ چونکہ واقعہ کربلاء اور اس سے پہلے آل محمد و علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ جو واقعات رونماء ہوئے ان کے بارے میں جو تاریخی ڈسکورس ہے وہ نواصب کو سپورٹ نہیں کررہا تھا توانہوں نے اس تاریخ کو کنفیوژن سے بھرا اور ناقبل اعتنا قرار دے ڈالا اور پھر اس واقعہ کی غلط اور من پسند تعبیر کی تا کہ ملوکیت کو تحفظ مل سکے – یہ وہ تاریخی حقائق سے ماورا یا اے ہسٹاریکل تعبیر ہے جوایسے لوگ کرتے ہیں اور اپنے تعصبات اور اپنی گمراہ کن خواہش کو ”فکر قرآن ” قرار دیتے ہیں ، یہی نواصب مولا علی اور اہلبیت رضی الله عنہم کی تنقیص میں گھڑی گئی اموی روایات پر وحی الہی کی طرح ایمان لے آتے ہیں اور بے دریغ بیان کرتے ہیں

سورۂ قصص میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : ” فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِهِ عَلَی الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّه” تو جو شخص اُن کی قوم میں سے تھا اس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں جو موسیٰ کے دُشمنوں میں سے تھا موسیٰ سے مدد طلب کی، یعقوب علیہ السلام نے قمیص یوسف سے بینائی واپس آنا قرآن میں ہے

اذْهَبُوْا بِقَمِيْصِيْ هٰذَا فَأَلْقُوْهُ عَلٰی وَجْهِ أَبِيْ يَأْتِ بَصِيْراً

میری یہ قمیض لے جاؤ، سو اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دینا وہ بینا ہو جائیں گے

فَلَمَّآ أَنْ جَآءَ الْبَشِيْرُ أَلْقَاهُ عَلٰی وَجْهِه فَارْتَدَّ بَصِيْراً”پھر جب خوشخبری سنانے والا آ پہنچا اس نے وہ قمیص یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی۔ اور قراں پاک میں اللہ ، اس کے رسول اور ایمان والوں کو ” مسلمانوں ” کا مدد گار – ولی – قرار دیا گیا اور اس آیت کے شان ںزول کا سبب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو جناب عبداللہ بن عباس نے قرار دیا ، نواصب اسی لئے تاریخ کو ” مغالطہ آمیز اور غلط ” قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کی روشنی میں اگر قرآن کی تشریح و تعبیر ہوگی تو ان کے بیان کردہ ” فلسفہ شہادت امام علی وحسین ” کی دھجیاں اڑ جائیں گی
نواصب حضرات نے ” حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ” کی خلافت کی اپنے تئیں جو ناکامیاں گنوائیں وہ سب کی سب ” منھاج السنۃ ” سے لی گئی ہين اور یہ ابن تیمیہ کی بدنام زمانہ کتاب ہے جس ميں بغض علی کرم اللہ وجہہ الکریم کھل کر سامنے آیا ، اس کے علاوہ یہ باتیں دیوبندیوں ميں خارجیت کی بنیاد مضبوط کرنےوالے فرقہ پرست مولوی عبدالشکور لکھنوی کی کتابوں کا خلاصہ ہیں ، اسی طرح کی ہرزہ سرائی بد نام زمانہ ناصبی محمو د احمد عباسی نے یزید پلید کی حمایت میں اپنی کتب جیسا کہ خلافتِ معاویہ و یزید میں کی ، اسی ہرزہ سرائی کا چربہ فرقہ پرست نواصب اور خوارج سوشل میڈیا پر شائع کرتے ہیں تا کہ امت مسلمہ میں تخریب ہو اور لشکر جھنگوی و داعش کی راہ ہموار ہو

یہ پوری لابی ناصبیت ، خارجیت کا جدید ایڈیشن ہے اور یہ تاریخ سے بدیگر دشمنان علی کی طرح خوفزدہ ہے ، ” خوارج جدید، تاریخ سے قرآن ” سے زیادہ ڈرتے ہیں اور اس لئے یہ تاریخی ” شعور ” کو برباد کرنے کے لئے آخری حد تک جاتے ہیں۔

ان لوگوں کی خارجیت پر مبنی رائے کے مطابق مسلمانوں کی تاریخ چرسیوں نے لکھی ہے۔ اس رائے کی بنیاد کیا تھی، اس کا تو ہمیں علم نہیں لیکن مقصد سے ہم بخوبی واقف ہیں۔ اِس رائے کی بدولت آپ کو یہ سہولت مل جائے گی کہ آپ اپنے خارجی نظریات کو جس طرح سے چاہیں گے،تاریخ کے من پسند سانچے میں ڈھال دیں گے اور جہاں ضروت پڑے گی وہاں سرے سے واقعات کا حلیہ ہی بدل کر رکھ دیں گے۔ تاکہ کسی طرح توحید پرستی کا دکھاوہ کرکے مقام مصطفی (ص) اور شانِ اہلیبیت رض کم کی جا سکے۔ اسے قدیم خارجیت کی جدید شکل کہہ لیجے یا روشن خیال کے لبادے میں چھپی ہوئی اہلیبیت سے دشمنی، لیکن اِس فکر کا ماخذ برصغیر پاک و ہند میں پائی جانی والی وہ فکر ہی ہے جس کی بنیاد شانِ رسول (ص) گھٹانا، اہلیبیت سے دشمنی اور مستند تاریخی واقعات کو مبہم اور مسلمانوں کی مجموعی رائے کا چوٹ پہنچانا ہے۔ یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ ان میں سے بعض اپنے اوپر روشن خیالی اور جدت کا لبادہ چڑھا کر خارجیت کی اس نئی شکل کی ترویج کر تے ہیں

ان لوگوں نے ” مقتل حسین ” پر لکھی جانے والی کتب سے ایسے صرف نظر کی ہے جیسے ان کا وجود ہی نہ ہو – سوشل میڈیا پرے اس گروہ کے مخاطب اسکول ، کالجز اور یونیورسٹی کے وہ طلباء و طالبات ہوتے ہیں جن کے سامنے نہ تو ” حقیقت اور مجاز ” کے فرق کاسنی، صوفی یا شیعی نکتہ نظر نہیں ہوتا اور ان کو تاریخ ، حدیث اور فقہ کی کتب اور روایات کے ماخذ بارے بھی علم نہیں ہوتا ، اب ان کے سامنے جب چالاک لوگ ” من گھڑت ” تعبیرات کا ملغوبہ ” جدید اصطلاحات میں بیان کرتے ہیں تو اکثر ”سادہ لوح سنّی نوجوان اس سے متاثر ہوجاتے ہیں ، ہم اس لئے کہتے ہیں کہ “مسلم شعور ” ” شعور تاریخ ” پر جو زور دیتا ہے وہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔

اس قبیلے کے نام نہاد ” جدیدت پسند ” خوارجیت کا جدید ایڈیشن ” ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں اور یہ سب ” جدیدیت ” کے نام پر سب سے زیادہ تاریخ کا قتل کرتے ہیں اور ان کا مشن وہی ہے جو یزید کا تھا۔ گویا پرانی شراب نئی بوتلوں میں بند کرکے پیش کی جاررہی ہے اور ان کی تقریروں سے وہ سٹف تیار ہوتا ہے جو بعد میں ” داعش ، القاعدہ ، لشکر جھنگوی ، جماعت الاحرار ” کے کام آتا ہے اور اس گروہ کی پاکستانی مڈل کلاس پیٹی بورژوا طبقے کی پروفیشنل پرتوں میں موجودگی کسی بھی ٹائم بم سے کم نہیں ہے اور یہ نام نہاد جدید اسکالرز پاکستان کے مین سٹریم میڈیا کے پرائم ٹائم میں ایک غالب ڈسکورس کے نمائندے بنتے جاتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کا اثر بھی بڑھ رہا ہے ، ایسی صورت میں ہمیں اور تیزی کے ساتھ اپنے نوجوانوں کے اندر ” شعور تاریخ ” پھونکنے کی ضرورت ہے۔