ایک تاریخی مغالطہ – کیا حضرت علی کی ام کلثوم نامی بیٹی تھی جس کی حضرت عمر سے شادی ہوئی؟


علما میں سے ایک بڑی جماعت کا نظریہ یہ ہےکہ حضرت علی رضی الله عنہ کی حضرت زینب رضی الله عنہاکے علاوہ کوئی اور دختر نہیں تھی اور در حقیقت ام کلثوم وہی جناب زینب ہیں اور وہ افراد جنھوں نے حضرت علی کی حضرت فاطمہ رضی الله عنہا سے اولاد ذکر کی ہیں یعنی امام حسن و حسین، زینب و ام کلثوم در حقیقت انھوں نے اس روایت کے متن کو بیان کیا جس میں کبھی زینب کا نام ہے تو کبھی ام کلثوم کا نام ہے اور اس بات کی طرف توجہ نہیں کی ہے ام کلثوم اور زینب ایک ہی ہیں اور ام کلثوم جناب زینب کی کنیت ہے چنانچہ یہ بات متعدد کتب میں ذکر ہوئی ہے ۔

مختلف مکاتب فکر کے علماء کی اس نظریہ کی تائید:

علماء اهل سنت کا نظریہ

اکابر علما سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا کی صرف تین یا چار اولاد بیان کرتے ہیں جس میں ام کلثوم کا نام نہیں ہے
صالحى شامى نےسبل الهدى و الرشاد میں لکھا ہے :
الثاني: في ولده – رضي الله تعالى عنهم – له من الولد الحسن والحسين ومحسن وزينب الكبرى من فاطمة – رضي الله تعالى عنهم – وله أولاد من غيرها كثيرون.
اولاد علي رضى الله عنه ،فاطمه زهرا سے ؛ حسن، حسين، محسن و زينب كبرى تھیں اور انکی مزید اولاد دوسری ازواج سے تھیں،
الصالحي الشامي، محمد بن يوسف (متوفي942هـ)، سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد، ج 11، ص 288، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود وعلي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة: الأولى، 1414هـ.

اسی طرح شهاب الدين قليوبى (متوفي1069هـ) نے شرح جلال الدين محلى جو منهاج الطالبين کی شرح ہے اسکے حاشیہ پر لکھا ہے علی کی جناب سیدہ فاطمہ سے تین اولاد تھی اور یہی بات جلال الدين سيوطى سے نقل کی ہے:
وہ مزید لکھتے ہیں:
قوله: ( والاعتبار بالأب ) أي إلا في حقه (ص) فإن أولاد بنته فاطمة وهم الحسن والحسين وأولادهما من الذكور ينتسبون إليه، وهم الأشراف في عرف مصر وإن كان الشرف أصالة لقبا لكل من أهل البيت، وأما أولاد زينب بنت فاطمة، وكذا أولاد بنات الحسن والحسين وأولادهما من غيرهم، فإنهم ينتسبون إلى آبائهم وإن كان يقال للجميع أولاده (ص) وذريته.
فائدة: قال الجلال السيوطي رحمه الله لم يعقب من أولاده (ص) إلا فاطمة الزهراء فإنها ولدت من علي رضي الله عنه الحسن والحسين وزينب، وتزوجت زينب هذه بابن عمها عبد الله فولد له منها علي وعون الأكبر وعباس ومحمد وأم كلثوم، وكل ذرية فاطمة يقال لهم أولاده (ص) وذريته لكن لا ينسب إليه منهم إلا الذكور من أولاد الحسن والحسين خاصة لنصه على ذلك ا ه.

یہ بات صحیح ہے اولاد کو باپ کی طرف نسبت دی جاتی ہے سوائے رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] کا معاملہ کو چھوڑ کر اس لئے کہ انکی بیٹی فاطمہ کی اولاد حسن وحسین اور انکی اولادِ ذکور وہ آپ [صلی اللہ علیہ و آلہ] سے منسوب ہیں جسے مصر کے عرف میں اشراف کہا جاتا ہے اگرچہ شرف اصل میں اہل بیت کے ہرنفر کا لقب ہے۔
جہاں تک تعلق زینب کی اولاد کا ہےاور اسی طرح حسن وحسین کی بیٹیوں کی اولاد کا تعلق ہے ۔۔۔ یہ سب اپنے آباء کی طرف منسوب ہیں اگر انکے لئے ذریت رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] یا اولاد رسول[صلی اللہ علیہ و آلہ] کہا جائے
جلال الدين سيوطى نے کہا ہے : رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی اولاد میں سےصرف جناب فاطمہ سے آپ [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی نسل چلی ہے اس لئے سیدہ کی امیر المومنین علی سے سے حسن حسین اور زینب اولاد تھی زینب نے اپنے چچا زاد عبد للہ بن جعفر سے شادی کی جس سے علی ، عون اکبر ۔عباس ، محمد اور ام کلثوم پیدا ہوئے ہر ذریت فاطمہ[سلام اللہ علیہا ] کو اولاد رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] کہا جاتا ہے لیکن ذریت رسول اکرم[صلی اللہ علیہ و آلہ] آپ کی طرف منسوب نہیں ہوتی ہیں فقط حسن و حسین کی ذکور اولاد آپ [صلی اللہ علیہ و آلہ] سے منسوب ہے کیوں کہ رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی طرف سے اسکے بارے میں نص خاص آئی ہے.

القليوبي، شهاب الدين أحمد بن أحمد بن سلامة (متوفاي1069هـ)، حاشية قليوبي على شرح جلال الدين المحلي على منهاج الطالبين، ج 3، ص 236، تحقيق: مكتب البحوث والدراسات، ناشر: دار الفكر، بيروت، الطبعة: الأولى، 1419هـ – 1998م.
اور شيخ محمد خضرى ،مصری عالم نے اولاد فاطمہ[سلام اللہ علیہا] کی تعداد صرف 3 بتائی ہے:
زواج علي بفاطمة عليهما السلام. وفي هذه السنة تزوج علي بن أبي طالب وعمره إحدى وعشرون سنة بفاطمة بنت رسول الله، وسنها خمس عشرة سنة، وكان منها عقب رسول الله صلى الله عليه وسلم بنوه: الحسن والحسين وزينب.
فاطمہ [سلام اللہ علیہا ]سے آپ رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی طرف سے کی نسل چلی جو حسن وحسین اور زینب[سلام اللہ علیہم اجمعین] تھے
الخضري، الشيخ محمد (متوفاي1298هـ)، نور اليقين في سيرة سيد المرسلين، ج 1، ص 111، تحقيق: أحمد محمود خطاب، ناشر: مكتبة الإيمان – المنصورة / مصر، الطبعة: الأولى، 1419هـ – 1999م.

اہل تشیع علما کی رائے

رضى الدين حلى 8 صدی کے شیعہ عالم ہیں وہ حضرت علی کی اولاد کے بارے میں کہتے ہیں:
كان له سبعة وعشرون ذكرا وأنثى: الحسن، والحسين، وزينب الكبرى المكناة بأم كلثوم ۔۔۔۔
حضرت علی کی 17 اولاد تھیں حسن حسین زینب کبری کہ انکی کنیت ام کلثوم ہے ۔۔۔۔۔
الحلي، رضى الدين على بن يوسف المطهر، (متوفاي705هـ)، العدد القوية لدفع المخاوف اليومية، ص242، تحقيق: السيد مهدى الرجائى، ناشر: مكتبة آية الله المرعشى ـ قم، الطبعة الأولى، 1408 هـ.
اور آيت الله مرعشى نے شرح احقاق الحق ، فضل بن روزبهان 10 صدی کے عالم سے نقل کیا ہے
ومنهم العلامة فضل الله روزبهان الخنجي الأصفهاني المتوفى سنة 927 في ” وسيلة الخادم إلى المخدوم ” در شرح صلوات چهارده معصوم عليهم السلام ( ص 103 ط كتابخانه عمومى آية الله العظمى نجفى بقم ) قال:…
اور حضرت على کی 17 اولاد تھیں اور ایک دوسری روایت کے اعتبار سے 20 اولاد تھیں حسن و حسین و محسن ۔۔۔ ام کلثوم[سلام اللہ علیہم] یہ چار جناب سیدہ فاطمہ سے ہیں
المرعشي النجفي، آية الله السيد شهاب الدين (متوفاي 1369ش)، شرح إحقاق الحق وإزهاق الباطل، ج 30 ص 172، ناشر: منشورات مكتبة آية الله العظمى المرعشي النجفي ـ قم.

باقر شريف القرشى، اس زمانے کے محقق لکھتے ہیں:

ليس لصديقة الطاهرة بنت غير السيدة زينب. و أنها تكنّا بأُمّ كلثوم. كما ذكرنا اليه بعض المحققين. و علي ايّ حال فإنّي اذهب بغير تردد اذا ان الصديقة الطاهرة الزهراء ليس عندها بنت تسمّي بأُم كلثوم.

صديقه طاهره کی زینب کے علاوہ کوئی دختر نہیں تھی زنیب وہی ہیں جن کی کنیت ام کلثوم ہے جیسا کہ بعض محقق حضرات کی یہی رائے ہے لیکن میں بغیر کسی شک اس بات کا قائل ہوں کہ جناب سیدہ کی زینب کے علاوہ کوئی اور دختر نہیں تھی جس کا نام ام کلثوم ہو۔
القرشي، باقر شريف (معاصر)، حياة سيدة النساء فاطمة الزهرا سلام الله عليها، ص 219.

———————————————————-

اس نظریہ کے صحیح ہونے پرقرائن :
اس نظریہ کے صحیح ہونے پر کافی قرائن ہیں جس میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں:
1. کسی بھی صحیح السند روایت میں زینب اور ام کلثوم کا نام ایک ساتھ نہیں آیا ہے :

کسی بھی صحیح السند روایت میں زینب اور ام کلثوم کا نام ایک ساتھ نہیں آیا ہے یا نام زینب آیا ہے یا نام ام کلثوم آیا ہے اسی طرح کسی بھی صحیح السند میں نہیں آیا ہے خلیفہ دوم نے جناب سیدہ کی بیٹی سے شادی کی تھی بلکہ تمام روایا ت یہ کہتی ہیں کہ ام کلثوم کے بارے میں بتایا جو حضرت علی کے گھر میں تھی
فقط اس بات کا استدلال بعض علماء کے کلام اور اجتہادات سے کیا گیا ہے جو دوسروں کے لئے جحت نہیں رکھتا ہے

2. عبد الله بن جعفرنے کس سے شادی کی ؟:
اهل سنت علما نےسند صحیح کے ساتھ نقل کیا ہے کہ عبد اللہ بن جعفر نے علی رض کی ایک بیٹی سے شادی کی – بعض میں اس دختر کا نام زینب اور بعض میں ام کلثوم ذکر ہوا ہے
محمد بن اسماعيل بخارى لکھتے ہیں:
وَجَمَعَ عبد اللَّهِ بن جَعْفَرٍ بين ابْنَةِ عَلِيٍّ وَامْرَأَةِ عَلِيٍّ.
عبد الله بن جعفر نے علی [ع] کی بیٹی اور ایک زوجہ کو ایک ہی وقت میں رشتہ ازدواج میں رکھا.
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 5، ص 1963، كِتَاب النِّكَاحِ، بَاب ما يَحِلُّ من النِّسَاءِ وما يَحْرُمُ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة – بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 – 1987.

اس روایت کی شرح میں علماء نے لکھا ہے کہ اس دختر سے مراد جناب زینب ہیں :

اور بعض نے اس بیٹی سے مراد ام کلثوم لی ہے :
حَدَّثَنَا سعيد حَدَّثَنَا جَرِير بن عَبد الحميد عَن قثم مولى آل العباس قال جمع عَبد الله بن جعفر بين ليلى بنت مَسعود النهشلية وكانت امرأة على وبين أم كلثوم بنت على لفاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم فكانتا امرأتيه.

الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 286، ح1011، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: الدار السلفية – الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م .

اسکی سند مکمل طور پر صحیح ہے ابن حجر اس کی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :
وقال بن سيرين لا بأس به وصله سعيد بن منصور عنه بسند صحيح
ابن سیرین نے کہا ہے کہ اس روایت میں کوِئی مسئلہ نہیں ہے اس لئَے کہ سعید بن مسعود نے اسے سند صحیح سے نقل کیا ہے
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 9، ص 155، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة – بيروت.
احمد بن حنبل کے فرزند نے بھی اس دختر کو ام کلثوم کہا ہے :
كانت عند عبد الله بن جعفر أم كلثوم بنت علي وليلى بنت مسعود وامرأة علي النهشلية.
عبد الله بن أحمد بن حنبل (متوفاي290 هـ)، مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله ج 1، ص 349، تحقيق: زهير الشاويش، ناشر: المكتب الإسلامي – بيروت، الطبعة: الأولى، 1401هـ ـ 1981م .
و بيهقى نےبھی اپنی دو کتاب میں دو كتاب عبد اللہ بن جعفر کی زوجہ کا نام ام کلثوم لکھا ہے :
جمع عبد الله بن جعفر بين ليلى بنت مسعود والنهشلية وكانت امرأة علي وبين أم كلثوم بنت عليلفاطمة فكانتا امرأتيه.
البيهقي، أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر (متوفاي458هـ)، معرفة السنن والآثار عن الامام أبي عبد الله محمد بن أدريس الشافعي، ج 5، ص 294، تحقيق: سيد كسروي حسن، ناشر: دار الكتب العلمية ـ بيروت.
البيهقي، أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر (متوفاي458هـ)، سنن البيهقي الكبرى، ج 7، ص 167، ناشر: مكتبة دار الباز – مكة المكرمة، تحقيق: محمد عبد القادر عطا، 1414 – 1994.

رحلة ابن بطوطة (متوفي779هـ) میں بجائے زیارت زینب بنت علی کہتا ہے قبر ام کلثوم بنت علی دمشق کے نزدیک ۔۔۔
وبقرية قبلي البلد وعلى فرصخ منها مشهد أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب من فاطمة عليهم السلام ويقال أن اسمها زينب وكناها النبي صلى الله عليه وسلم أم كلثوم لشبهها بخالتها أم كلثوم بنت الرسول….
اس شہر کے نزدیک اور ایک فرسخ کے فاصلہ پر ، بارگاه امّ*كلثوم بنت علي بن أبى طالب و فاطمه رضی الله عنہم ہے بعض نے کہا ہے انکا نام زینب لیکن نبی[ص] نے انکی کنیت ام کلثوم رکھی اپنی خالہ سے شباہت رکھنے کی وجہ سے ۔
ابن بطوطة، محمد بن عبد الله بن محمد اللواتي أبو عبد الله (متوفاي779 هـ)، تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأسفار (مشهور به رحلة ابن بطوطة )، ج 1، ص 113، تحقيق: د. علي المنتصر الكتاني، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: الرابعة، 1405هـ.
ابن بطوطہ کے اس کلام سے نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ یہ مدفن ام کلثوم کا ہے جو وہی جناب زینب ہیں اور یہ مدفون ام کلثوم نہیں ہو سکتا ہے اس لئے جو لوگ قائل ہیں کہ ام کلثوم اور زینب الگ الگ ہیں انکا مدفن مدینہ میں ہیں نہ کہ شام میں
حموى نے معجم البلدان نے بھی اس مزار کو امّ*كلثوم کا قرار دیا ہے :
راوية بكسر الواو وياء مثناة من تحت مفتوحة بلفظ راوية الماء قرية من غوطة دمشق بها قبر أم كلثوم.
قبر امّ*كلثوم راويه دمشق میں ہے .
الحموي، أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله (متوفاي626هـ)، معجم البلدان، ج 3، ص 20، ناشر: دار الفكر – بيروت.

ابن جبير اندلسى نے اپنے سفرنامه میں ، اس مدفن کو ام کلثوم کا قرار دیا ہے :
ومن مشاهد أهل البيت رضى الله عنهم مشهد أم كلثوم ابنة علي بن أبي طالب رضى الله عنهما ويقال لها زينب الصغرى وأم كلثوم كنية اوقعها عليها النبي صلى الله عليه وسلم لشبهها بابنته أم كلثوم رضى الله عنها والله اعلم بذلك ومشهدها الكريم بقرية قبلي البلد تعرف براوية على مقدار فرسخ وعليه مسجدكبير وخارجة مساكن وله اوقاف وأهل هذه الجهات يعرفونه بقبر الست أم كلثوم مشينا اليه وبتنا به وتبركنا برؤيته نفعنا الله بذلك.
اور اہل بیت کے مزارات میں سے ایک مزار مدفن ام کلثوم بنت علی کا ہے جس کو زینب صغرا بھی کہتے ہیں اور ام کلثوم کنیت ہے جسے آپ ص نے عنایت کی ۔۔اور یہ دمشق میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الكناني الأندلسي، أبي الحسين محمد بن أحمد بن جبير (متوفاي614هـ)، رحلة ابن جبير، ج 1، ص 196، تحقيق: تقديم / الدكتور محمد مصطفى زيادة، ناشر: دار الكتاب اللبناني / دار الكتاب المصري – بيروت / القاهرة.

اور عبد الرزاق بيطار، 14 صدی کے عالم نے واضح کہا ہے ام کلثوم وہی زینب[س] ہیں اور یہ مدفن انکا ہے ،:
راوية، وهي قرية من جهة الشرق إلى القبلة من الشام، بينها وبين الشام نحو ثلاثة أميال، وقد دفن في هذه القرية السيدة زينب أم كلثوم بنت الإمام علي بن أبي طالب، أمها فاطمة الزهراء بنت رسول الله.
روايه، شام کےمشرقی حصہ میں واقع ایک گاوں کا نام ہے جو شام سے تین میل کے فاصلہ پر ہے اس گاوں میں زینب بنت علی جن کی کنیت ام کلثوم تھی دفن ہوئی ہیں
البيطار، عبد الرزاق بن حسن بن إبراهيم (متوفاي1335هـ)، حلية البشر في تاريخ القرن الثالث عشر، ج 2، ص 50.

اکابر علماء اہل سنت نے تصریح کی ہے کہ جس ام کلثوم کا نکاح عمر رضی الله عنہ سے ہوا تھا وہ ابوبکر رض کی بیٹی تھی

محى الدين نووى، شارح صحيح مسلم نے کتاب تهذيب الاسماء میں کہا ہے کہ عمر رض نے ابوبکر رض کی بیٹی سے شادی کی تھی !!!

أختا عائشة: اللتان أرادهما أبو بكر الصديق، رضى الله عنه، بقوله لعائشة: إنما هما أخواك وأختاك، قالت: هذان أخواى، فمن أختاى؟ فقال: ذو بطن بنت خارجة، فإنى أظنها جارية. ذكر هذه القصة فى باب الهبة من المهذب، وقد تقدم بيانهما فى أسماء الرجال فى النوع الرابع فى الأخوة، وهاتان الأختان هما أسماء بنت أبى بكر، وأم كلثوم، وهى التى كانت حملاً، وقد تقدم هناك إيضاح القصة، وأم كلثوم هذه تزوجها عمر بن الخطاب، رضى الله عنه.

عائشہ رضی الله عنہا کی دو بہنیں وہی جو ابوبکر کی حضرت عائشہ سے گفتگو میں مراد تھیں ” یہ دو بھائی اور دو بہن [جو مجھ سے میراث پائیں گے] عائشہ سوال کیا میرے تو دو بھائی ہیں لیکن دو بہن کیسی [میری تو ایک بہن ہے] ابوبکر نے جواب دیا وہ بہن جو خارجہ کے شکم میں ہے میرے گمان میں وہ ایک لڑکی ہے ۔ اس قصہ کو کتاب الھبہ من المھذب میں بیان کیا گیا ہے اور ابوبکر کی دو بیٹوں کا بیان “ذکر اسماء رجال ” میں گزر گیا ہے یہ دونوں ابوبکر کی بیٹیاں وہ ہی اسماء بنت ابو بکر اور ام کلثوم ہے جو ابا بکر کی موت کے وقت شکم مادر میں تھی اور اسی بحث میں کامل قصہ گزر گیا ہے اور یہ وہی ام کلثوم ہےجس سے عمر بن خطاب کی شادی ہوئی
النووي، أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف بن مري (متوفاي676 هـ)، تهذيب الأسماء واللغات، ج 2، ص630، رقم: 1224، تحقيق: مكتب البحوث والدراسات، ناشر: دار الفكر – بيروت، الطبعة: الأولى، 1996م.

شادی کے وقت امّ كلثوم کی عمر کے بارے میں علماء کے درمیان بہت اختلاف ہے اور ایسی غلیظ باتیں روایات میں مذکور ہیں جن سے حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کی ہتک ہوتی ہے –
ابن حجر هيثمى ، الصواعق المحرقه میں کہتے ہیں :
وتقبيله وضمه لها على جهة الإكرام لأنها لصغرها لم تبلغ حدا تشتهى حتى يحرم ذلك….
بوسہ لینا اور گلے لگانا تکریم کی خاطر تھا اس لئے کہ وہ اس عمر کی نہیں ہوئی تھی کہ شہوت انگیز ہو حتی کہ عمر کے لئے ایسا کرنا حرام ہو !

الهيثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ)، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2، ص 457، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي – كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة – لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ – 1997م.

چھوٹی اور نابالغ جو دوسری لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی ہو :

عبد الرزاق صنعانى اسے ایسی چھوٹی بچی کہا ہے جو دوسری بچیوں کے ساتھ کھیلتی ہو :
تزوج عمر بن الخطاب أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وهي جارية تلعب مع الجواري….
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 164، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي – بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.

محمد بن سعد زهرى، نے بھی نابالغ بچی لکھا ہے :
تزوجها عمر بن الخطاب وهي جارية لم تبلغ.

الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر – بيروت.

اور دوسری روایت میں تو صبیہ یعنی بہت چھوٹی بچی لکھا ہے :
لما خطب عمر بن الخطاب إلى علي ابنته أم كلثوم قال يا أمير المؤمنين إنها صبية.
جب عمر رض نے امّ*كلثوم کی علي رض سے خواستگارى کی ، تو علي رض نے فرمایا : اے امیر المومنین وہ تو بہت چھوٹی ہے [صبیہ ] ہے

الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 464، ناشر: دار صادر بيروت.
ابن عساكر اور ابن جوزى نے بھی اسی مطلب کو نقل کیا ہے .
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 19، ص 485، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر – بيروت – 1995.ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص 237، ناشر: دار صادر – بيروت، الطبعة: الأولى، 1358.

بلاذرى، ابن عبد البر، زمخشرى اور… نے کہا ہے کہ وہ عمر سے شادی کے وقت”صغیرہ” تھی

خطب عمر بن الخطاب أم كلثوم بنت علي – رضي الله تعالى عنهم – فقال: إنها صغيرة.
جب عمر، نے امّ*كلثوم کی علي سے خواستگارى کی ، تو علي نے فرمایا : وہ بہت چھوٹی ہے۔
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 1، ص 296؛
القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1954، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل – بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ؛
الزمخشري الخوارزمي، أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد جار الله (متوفاى538هـ) ربيع الأبرار، ج 1، ص 468.

ابن جوزى نے کہا، یہ شادی 17 ہجری میں ہوئی اور عمر نے اس وقت شادی کہ جب وہ نابالغ تھیں :
وفي هذه السنة (17هـ) تزوج عمر رضي الله عنه أم كلثوم بنت علي رضي الله عنه… فزوجها إياه ولم تكن قد بلغت فدخل بها في ذي القعدة ثم ولدت له زيدا.
ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص 237، ناشر: دار صادر – بيروت، الطبعة: الأولى، 1358.

عمر اور ام کلثوم کی شادی کو ثابت کرنے کے سلسلے میں خوارج اور نواصب نے متعدد ایسی جعلی روایات کو گھڑا ہے کہ جس کےپڑھنے اور سننے سے ہر مسلمان شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے.
ہم سوال کرینگے کہ اچھے تعلق کو ثابت کرنا کس قیمت پر ؟ کیا اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ اس طرح کی جعلی اور گندی روایات کو ذکر کیا جائے ؟
ان نام نہاد علماء اور راویوں نے اس طرح کی روایات کو ذکر کرکے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ، علی مرتضی اور عمر رض کی توہین کی ہے

ام کلثوم اور عمر رض کی شادی کے کچھ نتائج نکلتے ہیں جس میں سے چھوٹا ترین ایک نتیجہ، ناموس رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے عمر رض کی خیانت ہے ۔
کیا یہ لوگ اس نتیجہ کو قبول کرتے ہیں ؟

عمر رض نے ام كلثوم کی پنڈلی برہنہ کی اور اس پر نگاہ کی:
ابن حجر عسقلانى کہ جو اہل سنت کے علمی شخصیت میں سے ہیں اور حافظ علی الاطلاق مانے جاتے ہیں وہ كتاب تلخيص الحبير و الاصابة میں اور دیگر بزرگ علماء اہل سنت نے اس توہین آمیز جملات کو نقل کیا ہے :
عن مُحَمَّدِ بن عَلِيِّ بن الْحَنَفِيَّةِ أَنَّ عُمَرَ خَطَبَ إلَى عَلِيٍّ ابْنَتَهُ أُمَّ كُلْثُومٍ فذكر له صِغَرَهَا فقال أَبْعَثُ بها إلَيْك فَإِنْ رَضِيت فَهِيَ امْرَأَتُك فَأَرْسَلَ بها إلَيْهِ فَكَشَفَ عن سَاقِهَا فقالت لَوْلَا أَنَّك أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ لَصَكَكْت عَيْنَك وَهَذَا يُشْكَلُ على من قال إنَّهُ لَا يَنْظُرُ غير الْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ.
محمد بن علي سے روايت ہے کہ عمر نے ام *كلثوم کی علي سے خواستگارى کی ۔ علی نے عمر کو یاد دلایا کہ وہ بہت چھوٹی ہےپھر علی نے کہا میں ام کلثوم کو تمہارے پاس بھیجوں گا اگر پسند آئے تو وہ تمہاری بیوی ہے پس انھوں نے بھیجا تو عمر نے ام کلثوم کی پنڈلی برہنہ کی تو ام کلثوم نے کہا اگر تو خلیفہ نہ ہوتا تو تیری آنکھوں کو اندھا کردیتی !
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 163، ح10352، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي – بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ؛
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 173، ح1011، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: الدار السلفية – الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م .
القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1955، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل – بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.
الانصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري (متوفاي644هـ) الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة، ج 1، ص 260؛
ابن قدامة المقدسي، بد الرحمن بن محمد (متوفاي682هـ)، الشرح الكبير، ج 7، ص 343؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) تلخيص الحبير في أحاديث الرافعي الكبير، ج 3، ص 147، تحقيق السيد عبدالله هاشم اليماني المدني، ناشر: – المدينة المنورة – 1384هـ – 1964م؛
الإصابة في تمييز الصحابة، ج 8، ص 293، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل – بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 – 1992؛
السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج 14، ص 265؛
الشوكاني، محمد بن علي بن محمد (متوفاي 1255هـ)، نيل الأوطار من أحاديث سيد الأخيار شرح منتقى الأخبار، ج 6، ص 240، ناشر: دار الجيل، بيروت – 1973.
عمر نے ام كلثوم کی پنڈلی برہنہ کی اور اس پر ہاتھ پھیرا!
اور ذھبی نے سير أعلام النبلاء میں اور دیگر بزرگان اهل سنت، نے اس توہین کو دوسری طرح نقل کیا ہے :
قال عمر لعلي: زوجنيها أبا حسن، فإني أرصُدُ من كرامتها مالا يرصد أحد، قال: فأنا أبعثها إليك، فإن رضيتها، فقد زَوَّجْتُكها، يعتل بصغرها، قال: فبعثها إليه ببُرْدٍ، وقال لها: قولي له: هذا البرد الذي قلت لك، فقالت له ذلك. فقال: قولي له: قد رضيت رضي الله عنك، ووضع يده على ساقها، فكشفها، فقالت: أتفعل هذا؟ لولا أنك أمير المؤمنين، لكسرت أنفك، ثم مضت إلى أبيها، فأخبرته وقالت: بعثتني إلى شيخ سوء!.
عمر نے علي سے کہا: ام كلثوم کی مجھ سے شادی کردو اور اس کے ذریعے سے ایسی فضیلت تک پہنچ جاوں جس تک کوئی نہیں پہنچا علی نے جواب دیا میں اسے تمہارے پاس بھیجوں گا اگر تمہیں پسند آئے[یا اسے راضی کردیا] تو اسکی تم سے شادی کر دونگا اگر چہ علی انکی صغر سنی کو راضی نہ ہونے کا سبب بیان کر رہے تھے پھر اسے ایک چادر کے ہمراہ بھیجا اس سے کہا کہ عمر کو میری طرف سے کہنا یہ وہ کپڑا ہے جس کا میں نے تم سے کہا تھا ۔ ام کلثوم نے بھی علی کے کلام کو دھرایا ۔ عمر ے کہا : اپنے والد کو میری طرف سے کہنا : مجھ پسند آیا اللہ تم سے راضی ہو پھر عمر نے ام کلثوم کی ساق پر ہاتھ رکھا اور اسے برہنہ کیا ام کلثوم نے کہا یہ کیا کر رہا ہے ؟ اگر تم خلیفہ نہ ہوتے تو تمہاری ناک توڑ دیتی پھر اپنے والد کے پاس لوٹ گئی اور انھیں سب بتا دیا اور ام کلثوم نے کہا آپ نے مجھے ایک بد[کردار] بڈھے کے پاس بھیجا تھا ۔
الزبيري، أبو عبد الله المصعب بن عبد الله بن المصعب (متوفاي236هـ)، نسب قريش، ج 10، ص 349، ناشر: دار المعارف تحقيق: ليفي بروفسال، القاهرة؛
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 19، ص 483، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر – بيروت – 1995؛
ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص 237، ناشر: دار صادر – بيروت، الطبعة: الأولى، 1358؛
ابن حمدون، محمد بن الحسن بن محمد بن علي (متوفاي608هـ)، التذكرة الحمدونية، ج 9، ص 309، تحقيق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر: دار صادر – بيروت،، الطبعة: الأولى، 1996م؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 7، ص 425، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ – 1996 م؛
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 4، ص 138، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي – لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ – 1987م؛
سير أعلام النبلاء، ج 3، ص 501، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ؛
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 24، ص 272، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث – بيروت – 1420هـ- 2000م؛
العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 14، ص 168، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت؛
الصفوري، عبد الرحمن بن عبد السلام بن عبد الرحمن بن عثمان (متوفاي894 هـ)، نزهة المجالس ومنتخب النفائس، ج 2، ص 438، تحقيق: عبد الرحيم مارديني، ناشر: دار المحبة – دار آية – بيروت – دمشق – 2001 / 2002م.

پس ثابت ہوا کہ حضرت علی رضی الله عنہ کو کوئی بیٹی ام کلثوم نامی نہ تھی جس سے حضرت عمر رضی الله عنہ کی شادی ہوئی، یہ سب تاریخی من گھڑت افسانہ ہے