کیا جاوید احمد غامدی اعتدال پسند دانشور ہیں؟ – خالد نورانی، مدیر صداۓ اہلسنت

جاوید احمد غامدی جماعت اسلامی کے بانیان میں شامل مولوی امین احمد اصلاحی کے شاگرد ہیں جوکہ اعظم گڑھ کے نظام الدین فراہی کے شاگرد تھے اور یہحضرات بنیادی طور پر شیخ ابن تیمیہ ، محمد بن عبدالوھاب نجدی ، حافظ ابن قیم ، حافظ عبدالہادی ، شاہ اسماعیل دہلوی ، سید احمد بریلوی اور سید مودودی ، سید قطب سے متاثر ہیں اور تصوف ، اشغال تصوف اور اہلسنت کے ہاں متحسن و معمول بہ چلے آنے والے افعال و رسوم کے بارے میں یہ سب کے سب شرک، بدعت ہونے کے قائل ہیں- اسی بنا پر یہ حضرات، اہلسنت جن کو جنوبی ایشیا میں بریلوی اور مشرق وسطی میں صوفی سنی کہا جاتا ہے کو مشرک، بدعتی قرار دیتے ہیں –

کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارا میڈیا ایک عرصہ تک سید مودودی، امین احسن اصلاحی ، نظام الدین فراہی کو ماڈریٹ، اعتدال پسند اور روشن خیال مذہبی سکالر بناکر پیش کرتا رہا اور اب جاوید احمد غامدی کو ایک اعتدال پسند مذہبی دانشور کے طور پر پیش کرتا ہے اور میڈیا میں خوب تشہیر کی جاتی ہے، ملیشیا سے لے کر امریکہ تک سے فنڈنگ ہو رہی ہے، اور اپنے پورے میڈیا نیٹ ورک کی مدد سے غامدی صاحب اور ان کے مقلدین اہل تصوف اہلسنت کو اہل بدعت اوراہل شرک ثابت کرنے کے خواہاں ہیں – اور اس طرح کی تکفیری سوچ اور شرک کے ملفوف فتوے اسوقت صادر کر رہے ہیں جبکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ داعش، لشکر جھنگوی، طالبان، الشباب وغیرہ کے تکفیری دہشت گرد، اہل تصوف کو مشرک اور بدعتی قرار دیکر پورے عالم اسلام میں ان کی نسل کشی کے مرتکب ہورہے ہیں ،پاکستان میں کراچی سے لیکر خیبر تک صوفی سنیوں کی درگاہوں و مساجد و مشائخ پر حملے جاری ہیں –