عرصہ دراز سے نواصب اور خوارج کا وطیرہ ہے کہ بارہ ربیع الاول یعنی میلاد النبی اور عاشورہ محرم یعنی نواسہ رسول امام حسین کی شہادت کے موقع پر یہ فرقہ وارانہ باتوں کا بازار گرم کرتے ہیں اور میلاد اور عاشورہ کی مجالس اور جلوسوں کے خلاف بدعت، شرک اور تکفیر کے خارجی الزامات، تہمتوں کا انبار لگانے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ ملکی قانون کے تحت سنگین جرم ہے – یہ خوارج چن چن کر میلاد، عاشورہ اور اولیا اللہ کے خلاف سیاق ور سباق سے کٹا ہوا یا غیر مستند تنقیدی مواد شئیر کرتے ہیں ، اگر یہ لوگ نبی اکرم اور ان کے اہلبیت و اصحاب سے مخلص ہوتے تو اہلحدیثوں میں سے مولانا محمد اسحاق، حافظ زبیر علی زئی اور انجینیر محمد علی مرزا، جماعت اسلامی میں سے مولانا مودودی اور ملک غلام علی، دیوبندیوں میں سے مولانا طارق جمیل، اہلسنت بریلویوں میں سے ڈاکٹر طاہر القادری، صاحبزادہ حامد رضا اور علامہ گلزار نعیمی اور اہل تشیع میں سے علامہ طالب جوہری، شہنشاہ نقوی اور ڈاکٹر عمار نقشوانی کی مکمل تقاریر و تحاریر شئیر کرتے
اگر آپ تکفیری خوارج اور نواصب کے پراپیگنڈے کے اثر میں آ کر چند مبالغہ پسند، غالی ذاکروں کو شیعہ مسلمانوں کا ترجمان سمجھتے ہیں تو پھر ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل احسان اللہ احسان ، مولوی برقع عبدالعزیز اور فضل اللہ کو دیوبندیوں، مولوی توصیف اور حافظ سعیدکو اہلحدیثوں اور خادم رضوی کو بریلویوں کا ترجمان سمجھنے میں عار محسوس نہیں کرینگے – اہم فرق البتہ یہ ہے کہ غلو کرنے والے سنی بریلوی اور شیعہ نبی اکرم اور اہلبیت کی محبت کی باتوں میں غلو کرتے ہیں جبکہ تکفیری ٹولہ اسی ہزار سے زائد پاکستانیوں کا قاتل ہے-
یاد رکھیے کہ کسی ایک مولوی یا ذاکر کے خیالات اور بغیر ٹھوس دلیل اور حوالے کے کوئی بھی گفتگو کسی فرقے یا عقیدے کی ترجمانی نہیں کرتی – ہاں البتہ ایسے چند لوگ ہر مکتب فکر میں پائے جاتے ہیں جو کم علمی کی بنیاد پر سادہ اور کم علم لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور دین کا نام استعمال کر کے اس کی غلط ترویج کرتے ہیں
پاکستان اور اسلام کی خدمت کا تقاضا ہے کہ ہم شائستگی اور مذہبی رواداری کے ساتھ تمام مسالک اور فرقوں کی اسلامی تعبیرات اور رسوم کا احترام کریں اور فکری و فقہی اختلاف کو اسلام و کفر کی جنگ نہ بنائیں