حافظ محمد صفوان
.
ایک دور میں میں فرقہائے باطل کے خلاف پڑھتے پڑھتے برادرم ڈاکٹر ذاکر نائیک کی طرح کا ایک چھوٹا موٹا انڈیکسر بن گیا تھا اور لاہ پھاہ کے فن میں ایسا اتارو ہوگیا تھا کہ کسی بھی فرقے کے خلاف گھنٹوں تقریر جھاڑ سکتا تھا۔ میرے دوست ادریس اختر لون نے ایک بار مجھ سے پوچھا کہ غلام احمد پرویز کیوں غلط ہے۔ میں نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ، دلائل سے پرویزیت کا دھواں اُڑا دیا۔ کہنے لگا کہ میرا سوال یہ نہیں، میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ اسلام کی وہ تعلیمات کیا ہیں جن پر پرویز کے عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے اُسے غلط کہا جاتا ہے؟ اِس کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔ اِدھر اُدھر پوچھنے پاچھنے اور بہت ٹِل لگانے کے بعد بالآخر اپنے ابا جان پروفیسر عابد صدیق صاحب سے رجوع کیا۔ فرمانے لگے کہ لوگوں کی کمیاں دیکھنے سے یہی کیفیت ہوجاتی ہے۔ فرقہ ورانہ لٹریچر پڑھنے سے تعمیرِ ذات نہیں ہوتی۔ تعمیریت پر مبنی چیزیں پڑھنے سے ذہن تعمیری سوچ پر آتا ہے۔ تفریقیت پر مبنی لٹریچر سے دین کی خدمت نہیں ہوتی بلکہ یہ تنفر پیدا کرتا ہے، اور یہ بھی ہوتا ہے کہ شدہ شدہ اِس کا زہر اپنی رگوں میں اترنے لگتا ہے۔ رکنے کی چیزوں سے روکنے کے بجائے کرنے کی چیزوں کے کرنے کا کہنا زیادہ مفید ہوتا ہے۔ بار بار روکنے سے تو الٹے ڈھٹائی پیدا ہوتی ہے۔ فرقہ ورانہ مناظرے کرنے والے اکثر مشہور لوگوں کی موت برے حال پر آئی ہے۔ اِس بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ والی ترتیب پر چلنا بہترین پالیسی ہے، کہ جس برائی کو مٹانا مقصود ہو اُس کا ذکر ترک کردو۔
قرآنِ پاک میں خدا نے ایک ایک فحش اور منکر کو الگ الگ نام بنام ذکر کرکے حضرت محمد علیہ السلام کو اس کے خلاف نبوی محنت کا حکم دینے کے بجائے فرمایا ہے: ان الصلوٰۃ تنہیٰ عن الفحشاءِ والمنکر (بلاشبہہ نماز فواحش اور منکرات سے روکتی ہے)، یعنی اگر نماز کی پابندی کی جائے تو انسان طرح طرح کی برائیوں سے رک جاتا ہے۔ مولانا محمد الیاس علیہ الرحمہ نے دعوت و تبلیغ کا کام اظہارِ منکر یا اشاعتِ منکر کے بجائے بنیادی طور پر اشاعتِ معروف کے اسی قرآنی طریقے پر چلایا اور خدا نے اسے عام استقبال عطا فرمایا۔ الحمدللہ۔ یہی تربیت ہے جس کی وجہ سے تبلیغ والے ساتھی اصولی طور پر کسی سے بحث نہیں کرتے اور بجائے دوسروں کے اعتراضات کا رد کرنے اور کسی خاص منکر کے استیصال کے درپے ہونے کے، اعمالِ صالحہ میں لگنے کی دعوت دیتے ہیں۔ مولانا طارق جمیل صاحب کا اس تبلیغی ترتیب پر عامل ہونا ہر کوئی جانتا ہے۔
مناقبِ اہلِ بیت کا تذکرہ وہ موضوع ہے جس پر اہلِ سنت بہت کم بولتے ہیں، اور دیوبندی حضرات تو اس موضوع پر اگر بولتے بھی ہیں تو شاذ؛ اور جو بولتے ہیں ان کے پاس بھی بالعموم چند سنی سنائی باتوں کو دوہرانے کے سوا کچھ مواد نہیں ہوتا، الا ماشاء اللہ۔ مولانا طارق جمیل صاحب نے 627 صفحات پر مشتمل اور 464 مآخذ و منابع کی مدد سے حضرات اہلِ بیت علیہم الرضوان کی سیرت و مناقب کا معطر تذکرہ بعنوان “گلدستۂ اہلِ بیت” مرتب کرواکے نہ صرف دنیا بھر میں پھیلتی زہریلی ناصبیت اور یزیدیت کا علاج اسی مخصوص “تبلیغی طریقے” سے کیا ہے بلکہ ایک ایسی علمی و تحقیقی کتاب مہیا کر دی ہے جس سے خصوصًا دیوبندی ذہن کے لوگ اس موضوع پر اپنی علمیت میں بہت اضافہ کر سکیں گے۔ خدا مولانا کی اس کتاب کو بہت قبول فرمائے اور ان کے لیے توشہ آخرت بنائے۔ آمین۔
یہ کتاب جامعۃ الحسنین فیصل آباد نے شائع کی ہے اور بلاتفریقِ مسلک ہر مسلمان کی ضرورت ہے۔ اس نہایت ضروری کتاب کا موجودہ ایڈیشن لائبریری سائز کا ہے چنانچہ اس کا پیپر بیک ایڈیشن اور عام کتابی سائز ایڈیشن جلد مہیا ہونا چاہیے۔