مفتی محمود نے اہل تشیع کی تکفیر نہیں کی – مولانا فیاض خان سواتی

مفتی محمود نے اہل تشیع کی عمومی تکفیر نہیں کی، فرقہ پرست جماعت حقائق مسخ نہ کرے – مولانا فیاض خان سواتی کی تحریر

مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے پچیس برس سن ۱۹۵۰ء سے سن ۱۹۷۵ء تک تقریباً بائیس ہزار فتاویٰ جاری فرمائے ، جو ’’ فتاویٰ مفتی محمودؒ ‘‘ کے نام سے شائع ہو رہے ہیں ، ان کے بارہ میں ، میں نے کچھ عرصہ پہلے ’’ فتاویٰ مفتی محمودؒ ‘‘ کے عنوان سے ایک تفصیلی پوسٹ لکھی تھی ، جس سے احباب کو بہت فائدہ ہوا تھا ، آج کل پھر اس مسئلہ کو (ایک فرقہ پرست جماعت سپاہ صحابہ کے کچھ افراد کی جانب سے) چھیڑا گیا ہے اور قائد جمعیۃ مولانافضل الرحمن حفظہ اللہ پر اتہام بازی کی گئی ہے کہ یہ تکفیرِ شیعہ کے حوالہ سے اپنے والد ماجد کے فتویٰ کو نہیں مانتے ، لہٰذا ہم انہیں نہیں مانتے وغیرہ ۔

مناسب معلوم ہوا کہ سنجیدگی سے حضرت مفتی صاحبؒ کا مؤقف ان کی اپنی وضاحت کے ساتھ پیش کر دیا جائے تا کہ کسی اور کو ان کی خوامخواہ وکالت کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے ، حضرت مفتی صاحبؒ کی یہ وضاحت نہ صرف پاکستان کی نیشنل اسمبلی کے ریکارڈ میں محفوظ ہے بلکہ اب تو صفحۂ قرطاس پر بھی منتقل ہو چکی ہے ، لہٰذا نہایت تدبر اور حوصلہ سے اسے ملاحظہ فرمائیں ، انہوں نے سن ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کے ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں جو مفصل بیان دیا تھا ، بعد ازاں اسے خود ہی انہوں نے ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء میں منعقدہ ایک تین روزہ آل پاکستان ختم نبوت کانفرنس چنیوٹ کے آخری اجلاس میں بھی ہزاروں لوگوں کے سامنے بیان فرمایا تھا ، جو ٹیپ ریکارڈ میں بھی محفوظ ہوا اور بعد ازاں وہ جناب صلاح الدین بی اے ٹیکسلا کی کاوش سے ترتیب پا کر ’’ مشاہیر کے خطباتِ ختم نبوت ‘‘ کے عنوان سے منصہ شہود پر آ چکا ہے ، اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے حضوری باغ روڈ ملتان سے اسے طبع کرایا ہے ، میں اپنے کسی تبصرہ کے بغیر ان ہی کے الفاظ صفحہ ۱۱۲ سے نقل کر رہا ہوں ، جو نہایت عبرت انگیز ، معلومات افزاء اور متعلقہ بحث کو بالکل آشکارہ کر رہے ہیں ۔

مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے فرمایا ۔

’’ جب بحث کے بعد پوری تفصیلات آنے کے بعد میں نے بھی وہاں ایک کتاب دو سو صفحے کی پڑھی ۔ ’’ ملت اسلامیہ کا مؤقف ‘‘ دو سو صفحات کی ۔ اول سے لے کر آخر تک تاکہ ہم بھی اپنا مؤقف پیش کریں ۔ انہوں نے ہمارے ممبروں کو تھوڑا اس بات میں ضرور متاثر کیا ۔

انہوں نے کہا دیکھو یہ دیوبندی ، بریلویوں کو کافر کہتے ہیں ۔ حوالہ فلاں ۔ یہ بریلوی دیوبندیوں کو کافر کہتے ہیں ۔ سنی شیعہ کو ، اہل حدیث مقلدوں کو ، غیر مقلدوں کو ۔ یہ سارے فتوے اکٹھے کر کے انہوں نے ایک بڑی لمبی فہرست بنائی تھی کہ ان کا تو کام ہی یہ ہے ۔ اگر ان کے فتوے معتبر ہیں تو پھر سب کافر ۔ صرف ہم کیوں؟ اس کے بھی ہم نے جوابات دیئے اور اصل بات یہ ہے کہ ہم میں جو بعض لوگ ، جو اصل میں متعصب قسم کے لوگ ہوتے ہیں ، جو مصلحتوں کو نہیں جانتے ، محض جذباتی قسم کے لوگ اور فتویٰ دینے کی اہلیت نہ رکھنے کے باوجود فتوے دیتے ہیں یہ فتوے وہ دیتے ہیں ۔ کسی بھی طبقے کے جید اور مستند علماء نے فتویٰ نہیں دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جعلی قسم کے فتویٰ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی اسلامی مسئلے پر متحد ہونے کی ضرورت ہوتی ہے یہ سارے فتویٰ الگ رہ جاتے ہیں اور اگر ان سے کوئی بھی حقیقی معنوں میں کافر ہوتا نعوذ باللہ ! تو پھر کیوں اکٹھے ہوتے؟ دستور کے مسئلے پر اکٹھے ۔ اس کے بعد ۱۹۵۳ء کی تحریک میں اکٹھے ، ۱۹۷۴ء کی تاریخ میں اکٹھے ۔ پھر اسمبلی کی بحث میں اکٹھے ۔ تو اس سے بالکل صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ فتوے اگر دیئے گئے ہیں تو جعلی ہیں ۔ یہ ہی بات ہے ۔ ورنہ پھر کبھی اکٹھے نہ ہوتے اب کسی اسلامی مسئلے پر آپ بتائیں ۔ قادیانی چونکہ حقیقی کافر ہیں ۔ اس لئے کسی اسلامی مسئلے پر ان کے ساتھ بیٹھنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ۔ بریلوی دیوبندی مل جاتے ہیں ۔ اہل حدیث اور مقلد مل جاتے ہیں ۔ شیعہ سنی مل جاتے ہیں ۔ یہ جیسے اکٹھے بیٹھ جاتے ہیں ایسے ان کے ساتھ کوئی بیٹھ سکتا ہے؟ بتاؤ ۔ اس لئے کہ ان کے بارے میں فتویٰ صحیح اور حقیقی فتویٰ ہے ۔ جعلی نہیں ۔‘‘

اس سے یہ بات بھی بالکل واضح ہو گئی کہ حضرت مفتی صاحبؒ کے جتنے بھی فتاویٰ تکفیرِ شیعہ کے متعلق ’’ فتاویٰ مفتی محمودؒ ‘‘ میں درج ہیں ، وہ علی الاطلاق تکفیر کے نہیں ہیں ، بلکہ جمہور امت کے مؤقف کے مطابق مقید ہیں ، جنہیں بعض لوگ مطلق پیش کرکے امت میں تفرقہ بازی ، انتشار اور اپنے ذاتی مفادات کے لئے غلط استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، اور پھر حضرت مفتی صاحب رح کو اپنا ہمنوا اور قائد جمعیۃ کو اپنے ہی والد محترم کے فتویٰ کے خلاف عامل قرار دینے کے گھناؤنے جرم کے ارتکاب کے بھی درپے ہیں ، امید ہے کہ احباب کو اس سلسلہ میں صحیح صورت حال سمجھنے میں اب کوئی دقت محسوس نہ ہوگی ۔

اللّٰھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ ۔
آمین بحرمۃ سید المرسلین۔

=====

پس نوشت – یاد رہے کہ جو اافراد قران کی صریح آیا ت کا انکار کریں جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کی صحابیت یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جن کے مقدس کردار کی گواہی قران کریم نے دی ہے کے کردار پر انگلی اٹھائیں، ان پر روافض اور تکفیر کا اطلاق ہوتا ہے ، لیکن دور حاضر کے شیعہ علما اور عوام کی اکثریت ، ماسوا چند بد بخت کم تعلیم یافتہ رافضی ذاکرین کے، اس قبیح فعل کے مرتکب نہیں اس لئے ان پر کفر کا عمومی اطلاق نہیں کیا جاتا، حوالہ کے لئے ملاحظہ فرمائیں آیت الله سیستانی، آیت الله خامنہ ای اور علامہ ساجد نقوی کے وہ فتاوی اور بیانات جن میں انہوں نے اہلسنت کے مقدسات بالخصو ص خلفا راشدین اور ام المومنین رضی اللہ عنھم کی توہین یا تکفیر کی مکمل ممانعت کی ہے، پس شیعہ کی عمومی تکفیر اکابر کا شیوہ نہیں، یہی مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کا موقف ہے اور یہی موقف جمعیت کا ہے، خارجیت اور تکفیری دہشت گردی کا مسلک دیوبند سے کوئی تعلق نہیں، اس کے ڈانڈے عالمی اور علاقائی اسٹبلیشمنٹ اور ان کے مقامی مہروں سے ملتے ہیں

حضرت مولانا مفتی محمود نے اہل تشیع کی عمومی تکفیر نہیں کی، فرقہ پرست جماعت حقائق مسخ نہ کرے – مولانا فیاض خان سواتی (فرزندِ صوفی عبدالحمید خان سواتیؒ) صاحب مدظلہ العالیہ کی تحریر ::: فتاویٰ مفتی محمودؒ حقیقت کے آئینہ میں ::: محمد فیاض خان سواتی مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے پچیس برس سن ۱۹۵۰ء سے سن ۱۹۷۵ء تک تقریباً بائیس ہزار فتاویٰ جاری فرمائے ، جو ’’ فتاویٰ مفتی محمودؒ ‘‘ کے نام سے شائع ہو رہے ہیں ، ان کے بارہ میں ، میں نے کچھ عرصہ پہلے ’’ فتاویٰ مفتی محمودؒ ‘‘ کے عنوان سے ایک تفصیلی پوسٹ لکھی تھی ، جس سے احباب کو بہت فائدہ ہوا تھا ، آج کل پھر اس مسئلہ کو (ایک فرقہ پرست جماعت سپاہ صحابہ کے کچھ افراد کی جانب سے) چھیڑا گیا ہے اور قائد جمعیۃ مولانافضل الرحمن حفظہ اللہ پر اتہام بازی کی گئی ہے کہ یہ تکفیرِ شیعہ کے حوالہ سے اپنے والد ماجد کے فتویٰ کو نہیں مانتے ، لہٰذا ہم انہیں نہیں مانتے وغیرہ ۔ مناسب معلوم ہوا کہ سنجیدگی سے حضرت مفتی صاحبؒ کا مؤقف ان کی اپنی وضاحت کے ساتھ پیش کر دیا جائے تا کہ کسی اور کو ان کی خوامخواہ وکالت کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے ، حضرت مفتی صاحبؒ کی یہ وضاحت نہ صرف پاکستان کی نیشنل اسمبلی کے ریکارڈ میں محفوظ ہے بلکہ اب تو صفحۂ قرطاس پر بھی منتقل ہو چکی ہے ، لہٰذا نہایت تدبر اور حوصلہ سے اسے ملاحظہ فرمائیں ، انہوں نے سن ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کے ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں جو مفصل بیان دیا تھا ، بعد ازاں اسے خود ہی انہوں نے ۲۸ دسمبر ۱۹۷۹ء میں منعقدہ ایک تین روزہ آل پاکستان ختم نبوت کانفرنس چنیوٹ کے آخری اجلاس میں بھی ہزاروں لوگوں کے سامنے بیان فرمایا تھا ، جو ٹیپ ریکارڈ میں بھی محفوظ ہوا اور بعد ازاں وہ جناب صلاح الدین بی اے ٹیکسلا کی کاوش سے ترتیب پا کر ’’ مشاہیر کے خطباتِ ختم نبوت ‘‘ کے عنوان سے منصہ شہود پر آ چکا ہے ، اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے حضوری باغ روڈ ملتان سے اسے طبع کرایا ہے ، میں اپنے کسی تبصرہ کے بغیر ان ہی کے الفاظ صفحہ ۱۱۲ سے نقل کر رہا ہوں ، جو نہایت عبرت انگیز ، معلومات افزاء اور متعلقہ بحث کو بالکل آشکارہ کر رہے ہیں ۔ مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے فرمایا ۔ ’’ جب بحث کے بعد پوری تفصیلات آنے کے بعد میں نے بھی وہاں ایک کتاب دو سو صفحے کی پڑھی ۔ ’’ ملت اسلامیہ کا مؤقف ‘‘ دو سو صفحات کی ۔ اول سے لے کر آخر تک تاکہ ہم بھی اپنا مؤقف پیش کریں ۔ انہوں نے ہمارے ممبروں کو تھوڑا اس بات میں ضرور متاثر کیا ۔ انہوں نے کہا دیکھو یہ دیوبندی ، بریلویوں کو کافر کہتے ہیں ۔ حوالہ فلاں ۔ یہ بریلوی دیوبندیوں کو کافر کہتے ہیں ۔ سنی شیعہ کو ، اہل حدیث مقلدوں کو ، غیر مقلدوں کو ۔ یہ سارے فتوے اکٹھے کر کے انہوں نے ایک بڑی لمبی فہرست بنائی تھی کہ ان کا تو کام ہی یہ ہے ۔ اگر ان کے فتوے معتبر ہیں تو پھر سب کافر ۔ صرف ہم کیوں؟ اس کے بھی ہم نے جوابات دیئے اور اصل بات یہ ہے کہ ہم میں جو بعض لوگ ، جو اصل میں متعصب قسم کے لوگ ہوتے ہیں ، جو مصلحتوں کو نہیں جانتے ، محض جذباتی قسم کے لوگ اور فتویٰ دینے کی اہلیت نہ رکھنے کے باوجود فتوے دیتے ہیں یہ فتوے وہ دیتے ہیں ۔ کسی بھی طبقے کے جید اور مستند علماء نے فتویٰ نہیں دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جعلی قسم کے فتویٰ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی اسلامی مسئلے پر متحد ہونے کی ضرورت ہوتی ہے یہ سارے فتویٰ الگ رہ جاتے ہیں اور اگر ان سے کوئی بھی حقیقی معنوں میں کافر ہوتا نعوذ باللہ ! تو پھر کیوں اکٹھے ہوتے؟ دستور کے مسئلے پر اکٹھے ۔ اس کے بعد ۱۹۵۳ء کی تحریک میں اکٹھے ، ۱۹۷۴ء کی تاریخ میں اکٹھے ۔ پھر اسمبلی کی بحث میں اکٹھے ۔ تو اس سے بالکل صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ فتوے اگر دیئے گئے ہیں تو جعلی ہیں ۔ یہ ہی بات ہے ۔ ورنہ پھر کبھی اکٹھے نہ ہوتے اب کسی اسلامی مسئلے پر آپ بتائیں ۔ قادیانی چونکہ حقیقی کافر ہیں ۔ اس لئے کسی اسلامی مسئلے پر ان کے ساتھ بیٹھنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ۔ بریلوی دیوبندی مل جاتے ہیں ۔ اہل حدیث اور مقلد مل جاتے ہیں ۔ شیعہ سنی مل جاتے ہیں ۔ یہ جیسے اکٹھے بیٹھ جاتے ہیں ایسے ان کے ساتھ کوئی بیٹھ سکتا ہے؟ بتاؤ ۔ اس لئے کہ ان کے بارے میں فتویٰ صحیح اور حقیقی فتویٰ ہے ۔ جعلی نہیں ۔‘‘ اس سے یہ بات بھی بالکل واضح ہو گئی کہ حضرت مفتی صاحبؒ کے جتنے بھی فتاویٰ تکفیرِ شیعہ کے متعلق ’’ فتاویٰ مفتی محمودؒ ‘‘ میں درج ہیں ، وہ علی الاطلاق تکفیر کے نہیں ہیں ، بلکہ جمہور امت کے مؤقف کے مطابق مقید ہیں ، جنہیں بعض لوگ مطلق پیش کرکے امت میں تفرقہ بازی ، انتشار اور اپنے ذاتی مفادات کے لئے غلط استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، اور پھر حضرت مفتی صاحب رح کو اپنا ہمنوا اور قائد جمعیۃ کو اپنے ہی والد محترم کے فتویٰ کے خلاف عامل قرار دینے کے گھناؤنے جرم کے ارتکاب کے بھی درپے ہیں ، امید ہے کہ احباب کو اس سلسلہ میں صحیح صورت حال سمجھنے میں اب کوئی دقت محسوس نہ ہوگی ۔ اللّٰھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ ۔ آمین بحرمۃ سید المرسلین۔ ===== پس نوشت – یاد رہے کہ جو اافراد قران کی صریح آیا ت کا انکار کریں جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کی صحابیت یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جن کے مقدس کردار کی گواہی قران کریم نے دی ہے کے کردار پر انگلی اٹھائیں، ان پر روافض اور تکفیر کا اطلاق ہوتا ہے ، لیکن دور حاضر کے شیعہ علما اور عوام کی اکثریت ، ماسوا چند بد بخت کم تعلیم یافتہ رافضی ذاکرین کے، اس قبیح فعل کے مرتکب نہیں اس لئے ان پر کفر کا عمومی اطلاق نہیں کیا جاتا، حوالہ کے لئے ملاحظہ فرمائیں آیت الله سیستانی، آیت الله خامنہ ای اور علامہ ساجد نقوی کے وہ فتاوی اور بیانات جن میں انہوں نے اہلسنت کے مقدسات بالخصو ص خلفا راشدین اور ام المومنین رضی اللہ عنھم کی توہین یا تکفیر کی مکمل ممانعت کی ہے، پس شیعہ کی عمومی تکفیر اکابر کا شیوہ نہیں، یہی مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کا موقف ہے اور یہی موقف جمعیت کا ہے، خارجیت اور تکفیری دہشت گردی کا مسلک دیوبند سے کوئی تعلق نہیں، اس کے ڈانڈے عالمی اور علاقائی اسٹبلیشمنٹ اور ان کے مقامی مہروں سے ملتے ہیں