کتاب حیرت بندگی پڑھتا ہوں – عامر حسینی

میں گزشتہ ایک ہفتے سے مذہب، آرٹ، لٹریچر کی باہمی رشتہ داری کو عقل خام سے کاٹنے کی کوشش کرنے والوں کی بدنصیبی بارے پڑھ رہا تھا اور بار بار سوچتا تھا کہ میں جب چھوٹا سا تھا اور ابھی سیکھنے کی ابتدائی منزل میں تھا تو اس زمانے میں بار باز بزرگوں سے سنا کرتا تھا کہ سیکھنے اور سکھانے کی دنیا ایسی ہے جس میں طالب علم بھی حیران اور سکھانے والے بھی مرتبہ حیرت سے باہر نکل ہی نہیں سکتے اور جو اس مرتبہ حیرت سے نکلنے کی کوشش کرتا وہ حلاوت اور جذب سے محروم ہوجاتا ہے اور اس سے وصال و ہجر دونوں کی لذتیں چھن جاتی ہیں۔

کچھ ایسی کیفیت پہ روشنی گزشتہ دنوں اس وقت پڑی جب رات کا آخری پہر تھا اور میں ‘لطائف قدوسی’ پڑھ رہا تھا۔ ایسے میں کچھ ملفوظات نے دل کی دنیا کو زبر و زبر کردیا اور بیدم وارثی کا کلام سننے لگا

بے خود کیے دیتے ہیں انداز حجابانہ
آ دل میں تجھے رکھ اے جلوہ جانانہ

گنگوہ اترپردیش ہندوستان کا قصبہ ہے۔ اس سرزمین کی پہچان شیخ عبدالقدوس گنگوہی چشتی صابری کے مزار سے ہے جو مرجع الخلائق ہے۔

اگرچہ یہ قصبہ دارالعلوم دیوبند کے بانی مولوی قاسم نانوتوی کے شاگرد اور دارالعلوم دیوبند میں ‘مائل از طرف فکر ابن تیمیہ،ابن وہاب و شیخ اسماعیل دہلوی’ مولوی رشید احمد گنگوہی کی جائے پیدائش کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ اسے آپ قدرت کی ستم ظریفی کہہ سکتے ہیں کیونکہ مولوی رشید احمد گنگوہی وہ پہلے آدمی تھے جنھوں نے تصور بدعت کے معاملے میں ابن تیمیہ و ابن وہاب و شاہ اسماعیل و سید احمد بریلوی کی سنگت کی اور اپنے استاد قاسم نانوتوی ، اپنے مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکّی تک کی بات نہیں مانی اور امداد اللہ مہاجر مکّی کو ‘رسالہ ہفت مسائل’ لکھنا پڑی۔

لیکن گنگوہ بہرحال شیخ عبدالقدوس صابری چشتی کی وجہ سے معروف ہے۔

شيح عبدالقدوس گنگوہی کو اقبال کو پڑھنے اور ان سے عقیدت رکھنے والوں نے بھی اقبال کے معروف خطبات میں ایک جگہ پہ مقام نبوت اور مقام ولایت کی بحث کے دوران شيخ عبدالقدوس گنگوہی کے قول کے سبب بھی پہچانا۔ اگرچہ اس سے آگے وہ نہیں جاسکے کیونکہ شیخ عبدالقدوس ‘صلح کلیت ‘ ‘ سب کے لیے امن و شانتی’ کے قائل تھے اور وہ ‘وحدت الوجود؛’ رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ شیخ عبدالقدوس گنگوہی نے معراج کے تناظر میں کہا تھا

محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم در قاب قوسین او ادنی رفت و باز گردید واللہ ما باز نگردیم

محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام قاب قوسین او ادنی تک گئے اور واپس آگئے اللہ کی قسم میں جاتا تو پلٹ کر نہ آتا۔

شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے صاحبزادے نے ‘لطائف قدوسی ‘ کے نام سے ان کے ملفوظات فارسی زبان میں درج کیے۔ اس میں لطیفہ 6 میں انھوں نے لکھا:

شیخ فتح اللہ العمروف میاں چکنہ جو شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے استاد بھی رہے تھے ایام جذب(ومستی و استغراق) کی حالت میں مبتلا شیخ گنگوہی کو ملے اور ان سے پوچھا کہ ‘ کس منزل میں ہو میاں؟ اور کونسی کتاب پڑھتے ہو؟

شیخ عبدالقدوس گنگوہی نے ان کو بے ساختہ جواب دیا
‘کتاب حیرت_بندگی ‘ پڑھا کرتا ہوں

شیخ عبد القدوس نے ان دنوں ایک لمبا سا چوغہ پہنا ہوا ہوتا تھا اور ساتھ کاندھے پہ ایک چرمی تھیلا لٹکایا ہوا ہوتا تھا۔ ( ان کے صاحبزادے کا کہنا ہے یہ لباس عمومی طور پہ مداری پہنا کرتے تھے، لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ لباس ان دنوں ملامتی تحریک سے جڑے جوگی،سادھوؤں اور صوفیاء کا ہوا کرتا تھا جو اس زمانے کے علمائے ظاہر اور مولوی نما صوفیوں سے خود کو دور رکھنے کے لیے زیب تن کیا جاتا تھا اور عوام سے اپنی جڑت دکھائی جاتی تھی) اس لباس کو دیکھ کر ان کے استاد نے جب یہ کہا کہ ‘ یہ لباس تو مداریوں کا سا ہے’ تو انھوں نے عالم استغراق ہی میں فرمایا ‘ نہیں یہ لباس مداریوں ‘ جیسا نہیں ہے۔

خیر میں دیر کیسی

شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے والد وفات پاگئے تھے اور ادھر ایام جذب و استغراق میں شیخ عبدالقدوس گنگوہی نے ظاہری علوم کی طرف توجہ کرنا بالکل ختم کردی تھی تو اس حالت کو دیکھ کر ان کی والدہ شدید تکلیف میں رہتی تھیں۔شیخ گنگوہی کے صاحبزادے نے لکھا کہ ان کی والدہ شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے علوم ظاہرہ کے دروس سے ہٹ جانے پہ اتنا رویا کرتی تھیں جتنا کوئی میت پہ رویا کرتا ہے۔ ان کے بھائی اس زمانے میں رودلی کے قاضی تھے۔ وہ اپنے بھائی کے پاس گئیں اور ان سے کہا کہ شیخ کو سمجھائیں۔ انھوں نے بھانجے کو بلایا اور کہا کہ وہ ان کو سخت سزا دیں گے۔ اس پہ انھوں نے کہا ‘ الخیر لا يوخر’ نیک کام میں دیر کیسی، اتنے میں اسی وقت گانے والی عورتیں وہاں پہنچ گئیں۔ انھوں نے کلام گانا شروع کردیا۔ شیخ عبدالقدوس رحمہ اللہ جو پہلے ہی حالت جذب میں تھے وہ وجد میں آگئے اور رقص کرنا شروع کردیا۔

ان کے قاضی ماموں نے جب بھانجے کی یہ کیفیت دیکھی تو اپنی بہن کو تسلی دیتے ہوئے کہا

فکر نہ کریں یہ اور ہی راستے کے مسافر ہیں۔ یہ ٹھیک ہوجائیں گے۔ ان کو ان کے حال پہ چھوڑ دیں۔

ہندوستان میں ہی آج کے صوبہ ھریانہ میں ایک معروف قصبہ سدھوڑا ہے۔ اس قصبے کے شیخ خواجگی سدھوڑوی بہت بڑے عابد،زاہد پرہیز گار صوفی عالم تھے۔ شيخ گنگوہی ان سے بہت متاثر تھے۔ جب کبھی سدھوڑا جانا ہوتا تو شیخ خواجگی کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتے۔ ایک بار ان سے فرمانے لگے

‘حضور میں نے علوم ظاہری کی تکمیل نہیں کی۔ علم اصولی تو بالکل نہیں آتا۔’

” میاں جاؤ، شغل باطن میں مصروف رہو۔ اس راہ میں تمام اصول فروع ہیں اور تمام فروع اصول ہیں۔”

ان کے صاحبزادے یہ واقعہ درج کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں کہ حقیقت میں ایسا ہی ہوا اور ان کے والد نے ان کو نسخہ شاہی و شامی پڑھایا اور جب دہلی میں انھوں نے نسخہ کشف منار پڑھنا شروع کیا تو اس پہ ان کو شيخ ایسے ایسے نکات بتایا کرتے تھے کہ آدمی حیران رہ جائے۔

اب آپ حافظ شیرازی کا یہ شہر ملاحظہ کریں

نگار من که به مکتب نرفت و خط ننوشت
به غمزه مسئله آموز صد مدرس شد

میرا محبوب نہ تو کسی مکتب میں گیا اور نہ اس نے لکھنا سیکھا
وہ اپنی ایک ادا ( یہاں اس سے باطنی علم لدنی بھی مراد لے لیں) استادوں کو سو مسئلے سکھانے والا ہوگیا ہ