یہ 1990 کی دہائی کا آغاز ہے ، قومی افق پر چار تنظیمیں ابھر کر سامنے آ رہی ہیں ،
١. انجمن سپاہ صحابہ (بعد میں سپاہ صحابہ پاکستان بنی اور پھر کالعدم ہو گئی)
٢۔ لشکر طیبہ (بعد ازاں جماعت الدعوی اور پھر کالعدم)
٣. ایم کیو ایم (عملی طور پر شکست ور ریخت اور کالعدم)
٤. منہاج یوتھ لیگ
پہلی تین تنظیموں نے عمومی طور پر تعلیمی اداروں سمیت عوامی ، مذہبی و سیاسی میدان میں اسلحہ کی طاقت اور بدمعاشی کے زور پر چھا جانے کی حکمت عملی اختیار کی –
کوئی صحابہ کے نام پر مخالف فرقے کو اسلام سے نکالنے کی جلدی میں ہے ۔ کوئی مجاہد گھوڑوں پر بیٹھ کر کلاشنکوف سے وائٹ ہاوس اور دہلی پر اسلام کا جھنڈا گاڑنے کا خواب دکھا کر معاشرے میں جدید اسلحہ متعارف کروا رہا ہے
کوئی اپنی قوم کے پامال حقوق کی بازیابی کیلیے بوری بند لاشیں دکھا کر اپنی گرفت مضبوط کر رہا ہے ۔
ایک جماعت، اسلامی انقلاب کیلیے نوجوانوں کی ٹریننگ افغان پہاڑوں میں کر کے ان مجاہدین کو یونیورسٹی اور کالجز میں اتار رہی ہے ۔ معاشرے کے جذباتی نوجوان نفسیاتی بلیک میلنگ کا شکار ہو کر ، اسلحہ اور طاقت کے نشے میں سرشار ہو کر ان گروہوں کی طرف کھنچے جا رہے ہیں ۔
ایسے ہیجان انگیز ماحول میں منہاج یوتھ لیگ کا سالانہ اجلاس ہوتا ہے ، نوجوان طلباء اپنے قائد سے بہ اصرار التجا کرتے ہیں کہ ہمیں بھی دفاع اور ٹریننگ کیلیے اسلحہ رکھنے کی اجازت دیجائے ۔ تمام شرکاء نے ہاتھ بلند کر کے مطالبے کے حق میں پرجوش نعرہ بازی شروع کر دی
جب ذ را شور تھما تو وہی سکوت طاری کر دینے والی ، محبت سے لبریز میٹھی آواز بلند ہوئی
میرے بیٹو ، جتنا مرضی چیخو ، چلاو یا شور مچاو ۔ میں آپ کو ایک معمولی چاقو بھی رکھنے کی کبھی اجازت نہیں دونگا ۔ تم اپنی توجہ صرف اپنی تعلیم و تربیت اور مشن کے پرامن پیغام پر فوکس رکھو ، ہم نے بندوق کے زور پر نہیں ، اچھے اخلاق اور محبت و خدمت سے معاشرے کو تسخیر کرنا ہے ۔
آپکے مطالبہ کے جواب میں آج نیا نعرہ اور لاحہ عمل آپ کو دے رہا ہوں ، ” علم امن، قدم قدم “
میرے بیٹو جذبات کی رو میں نہ بہہ جانا ، بیس سال گزرنے دو ان اسلحہ بردار تنظیمات کا حشر میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں ان کو پاکستان سمیت دنیا میں چھپنے کی بھی جگہ نہیں ملے گی یہ محض کڑھی کا وقتی ابال ہے ، اصل منزل آپ کو ملے گی اگر ثابت قدم رہے ۔
