عالمی یومِ انہدامِ جنت البقیع – مفتی امجد عباس

نجد و حجاز میں بالخصوص مکہ اور مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اسلام کے ابتدائی دور کے بہت سے آثار اور تاریخی مقامات تھے، جنھیں “شرک” کے وسوسے کے پیش نظر مٹا دیا گیا۔ مدینہ منورہ کا تاریخی قبرستان؛ جنت البقیع جہاں خاندانِ نبوت میں سے حضرت عباس، امام حسن، امام زین العابدین، امام محمد باقر، امام جعفر صادق علیھم السلام سمیت ازواجِ نبی اور صحابہ کرام بھی مدفون ہیں، اُس قبرستان پر بھی بلڈوزر چلا کر، بعض قبور پر بنے قُبے گرا دیئے گئے اور قبور کو سطحِ زمین کے برابر کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ اس قبرستان میں بعض قبور پر شروع سے قبے موجود تھے، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بعض ہستیوں کو اُن کے گھروں میں ہی دفن کیا گیا تھا، یُوں قبر پر عمارت باقی رہی۔ محمد بن عبد الوہاب اور آلِ سعود کے اشتراک سے بننے والی حکومت نے جہاں نجد و حجاز اور ملحقہ علاقوں کا نام، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا اسلام کے نام پر رکھنے کے بجائے خاندانی نام “سعودی عرب” میں بدل ڈالا؛ وہیں اپنی خود ساختہ مذہبی تعبیر کے پیش نظر، بقیع کے قبرستان اور خاندانِ نبوی کے گھروں سمیت مختلف قدیمی تاریخی مقامات کو گرا دیا۔ عہد نبوی کے کنوؤں، چشموں اور باغات تک کو ختم کر دیا-
ملحوظ رہے قبور پر بنی عمارت کی حُرمت، مسلمانوں کے ہاں اختلافی ہے۔ اِسی طرح قبور کو زمین کے برابر کرنا بھی سب مسلمان فرقوں کے ہاں لازم نہیں ہے۔ دنیا بھر میں انبیاء، اہلِ بیت نبوی، صحابہ کرام اور محدثین و بزرگ مسلم علما کی قبور پر عمارات موجود ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ سعودی حکومت، گنبدِ خضریٰ کو بھی گرانا چاہتی تھی؛ لیکن عالمِ اسلام کی مخالفت کے ڈر سے رُک گئی۔ ہمارے ایک دوست کے مطابق سعودیہ حکومت نے اپنے تاریخی آثار کو خوب سنبھال کر رکھا ہوا ہے؛ حتیٰ کہ آلِ سعود کا وہ محل بھی درعیہ نامی گاؤں میں محفوظ ہے، جہاں باقاعدہ حکومت سے پہلے، بطورِ ڈاکو، یہ خاندان رہا کرتا تھا اور حاجیوں کو لوٹنا اِن کا پیشہ ہوتا تھا۔
آغا شورش کاشمیری، جنھیں حجاز اور ملحقہ علاقے دیکھنے اور حکومتی اقدامات کو قریب سے ملاحظہ کرنے کا موقع ملا، نے فرمایا تھا کہ ساری دنیا میں تاریخی آثار ڈھونڈ ڈھونڈ کر محفوظ کیے جاتے ہیں۔ سعودی حکومت نے تاریخی آثار ڈھونڈ ڈھونڈ کر ضائع کیے۔
آج مدینہ منورہ میں بعض عرب لوگ بتاتے ہیں کہ جہاں یہ پلازہ یا ہوٹل بنایا گیا ہے یہاں عہدِ نبوی میں فُلاں ہستی کا گھر تھا یا مسجد تھی۔ یہی حال مکہ کا ہے۔
میں اسلام آباد کے مضافات میں، بُدھ مت کے تاریخی غار دیکھ کر، انتہائی خوش ہوا؛ جبکہ یہاں یہ حال ہے کہ مکہ اور مدینہ میں گوتم بدھ کے سیکڑوں سال بعد آنے والے عظیم انسان اور اُس کے عزیز و اقارب اور ساتھیوں کے آثار موجود نہیں ہیں۔ تاریخی مقامات خواہ وہ قبور ہی ہوں، اُن کا تحفظ ضروری ہے۔ آلِ سعود کو اب بھی حجاز اور ملحقہ علاقوں کا نام خاندانی نام کے بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام پر رکھنا چاہیے اور جنت البقیع میں موجود تاریخی قبور سمیت، حجاز میں اب چند گنے چُنے باقی رہ جانے والے مقامات کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے۔ سعودی حکومت اپنے بُزرگ (سعود) کی محبت میں پوری مملکت کا نام اُس کے نام پر رکھ سکتی اور اپنے خاندان کے آثار محفوظ بنا سکتی ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کا تقاضا تو یقیناً اس سے کہیں زیادہ ہے۔

امجد عباس

(نوٹ: یہ سطور 8 شوال، عالمی یومِ انہدامِ جنت البقیع کی مناسبت سے لکھی گئی ہیں)