جاوید احمد غامدی صاحب اور شہادتِ عمارِ یاسر

جاوید احمد غامدی صاحب کی ایک ویڈیو کلِپ گردش میں ہے جس میں موصوف نے شہادتِ عمارِ یاسر کے حوالے سے رسول کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ بارے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ محترم اس ویڈیو میں اس حدیث سے اچھے خاصے گھبرائے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔

گھبراہٹ کا سب سے پہلا ثبوت تو یہ ہے کہ آپ مسلسل اس حدیث کو خبر واحد کہہ رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس قابل ہی نہیں کہ اسے کسی سنجیدہ علمی محفل میں پیش کیا جائے۔ حالانکہ اس حدیث کے دو حصوں میں پہلا حصہ (عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی) متواتر ہے، کم از کم چھبیس صحابہ نے اسے روایت کیا ہے، یہ حدیث کئی طروق سے وارد ہوئی ہے، امام بخاری سمیت متعدد محدثین نے اسے نقل کیا ہے اور اکثریت نے صحیح یا حسن کے درجہ پر رکھا ہے۔ گویا غامدی صاحب کے نزدیک صحیح بخاری سمیت احادیث کے اکثر مجموعے غیر سنجیدہ ہیں اور علمی معیار پر پورا نہیں اترتے۔ سبحان اللہ۔ جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے!

اس حدیث کا دوسرا حصہ (عمار انہیں جنت کی طرف بلا رہا ہوگا اور وہ اسے جہنم کی طرف بلا رہے ہوں گے) حدیث کے سات بڑے راوی صحابیوں میں سے ایک ابوسعید خدریؓ سے متعدد کتب میں نقل ہوا ہے۔ حدیث کا یہی حصہ خبرِ واحد ہے اور اس حصے پر بہت بحث ہوئی ہے، لیکن اسے بھی ضعیف ثابت نہیں کیا جاسکا، یہی وجہ ہے کہ شیعانِ معاویہ کے علماء کو اس کی تاویل کرنا پڑی اور اسے ماضی کے صیغے میں ڈال کر مشرکین مکہ سے منسوب کرنا پڑا۔ اس کے خبر واحد ہونے کی وجوہات بہت واضح ہیں۔ جبر اور ملوکیت کے اس دور میں جب امام نسائی کو صرف فضائل علی بیان کرنے کی پاداش میں شہید کردیا گیا، ہر کسی کی ہمت نہ تھی کہ وہ ایسی تلخ اور سخت چیزیں بیان کرسکے۔خبر واحد کے حوالے سے غامدی صاحب کا یہ موقف کہ اس کی کوئی مقتدر حیثئیت نہیں بلکہ ایسی خبر محض ظنی ہے، اپنی جگہہ بے بنیاد اور ہوائی ہے اور یہ بات شاید محمد بن سلمان نے غامدی صاحب کو بتائی ہے۔ اس موقف کو مان لیا جائے تو نصف شریعت اور فقہ ہوا ہو جاتی ہیں۔

لیکن اس سب کے باوجود محض بحث کے لیے اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ حصہ امیرشام کی جماعت بارے نہیں ہے یا اس قابل نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر صحابہ کے بارے میں رائے قائم کی جائے، تب بھی حدیث کا پہلا حصہ (عمار کو باغی جماعت قتل کرے گی) جس کی صحت شک و شبہ سے بالاتر ہے، سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو برحق ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہمیں کسی کی جنت دوزخ کا فیصلہ کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں بلکہ صرف اسلام کا اصول، سیاست و حکومت واضح کرنا مقصد ہے جس کے لیے یہ حدیث بہت اہمیت رکھتی ہے۔ مزید یہ کہ جہنم کی طرف بلانا لازمی طور پر جہنمی ہونے کی ضمانت نہیں ہوتی۔ بخشش، رحمت اور شفاعت کی دروازے ان لوگوں کے لیے بھی کھلے رہتے جو زندگی میں کسی مقام پر لوگوں کو جہنم کی طرف بلاتے رہے ہوں۔ لہذا ہم اہلِ صفین کو بھی بالقین جہنمی (یا جنتی) نہیں سمجھتے بلکہ فیصلہ اللہ پر چھوڑتے ہیں۔

یہاں حیرت ہمیں صرف جاوید احمد غامدی کی بت شکنی کے اصول پر ہے۔ وہ شخص جس نے تصوف، فقہ، اسلامی نظام حکومت، اہلبیت اور مہدی جیسے بڑے بڑے اور مضبوط ”بت“جن پر اسلامی تہذیب اور مسلم شعور کھڑا ہے، اپنے تئیں صرف استدلال سے گرا دئیے، وہ احادیث کے ہوتے ہوئے بھی صحابیت کا بت نہ گرا پایا، اور صحابیت بھی ان کی صحابیت جو حقیقی صحابی ہیں ہی نہیں بلکہ سیاسی مصلحتو ں کے تحت اعزازی طور پر صحابی قرار دئیے گئے ہیں۔

حدیث پر یہ بھی اعتراض کیا گیا ہے کہ بعض جگہوں پر یہ حدیث مسجدِ نبوی کی تعمیر اور بعض جگہوں پر خندق کی کھدائی کے ضمن میں بیان ہوئی ہے۔ یہ بات اس حدیث کو مضبوط تو بنا سکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سے زیادہ موقعوں پر یہ بات کی، ضعیف ہرگز نہیں بناتی۔

اب آتے ہیں غامدی صاحب کے اس اعتراض کی طرف کہ مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اس حدیث کو کیوں اپنے حق میں پیش نہیں کیا؟

او ل تو یہ بات ہی درست نہیں ہے کہ مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اس حدیث کا ذکر نہیں کیا۔ مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے بطور خلیفتہ المسلمین بہت کم چیزیں سند کے ساتھ کتب حدیث میں نقل ہیں۔ اور جو نقل ہے اس کا بھی غامدی صاحب نے کتنا مطالعہ کیا ہے جو وثوق سے یہ بات کررہے ہیں کہ امیر المومنین نے یہ حدیث کہیں پیش نہ کی اور پھر اس کا تقابل ثقیفہ بنو ساعدہ میں سیدّنا ابوبکر صدیقؓ کی تقریر سے کررہے ہیں۔ حالانکہ سقیفہ کی صورتحال اور سیدّنا علی کی صورتحال میں بہت فرق تھا۔ سیدّنا ابوبکر صدیق ؓ کے سامنے انصار تھے جن کے اسلام سے اخلاص پر کوئی شک نہیں ہوسکتا اور جنہیں سیدّنا صدیق سے کوئی حسد یا بدگمانی نہیں تھی۔ سیدّنا ابوبکر صدیق ؓ کو اپنی بات رکھنے کا موقع ملا۔ دوسری طرف مولا علی ؓ کے مقابل لشکرِ جمل بدگمانی اور لشکرِ صفین دشمنی و عناد کی بنیاد پر کھڑا تھا اور مولا علی ؓ کی بات سننے پر تیار ہی کب تھا؟

حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث صحابہ و تابعین میں اس قدر مشہور اور معروف تھی کہ اس کوبار بار بیان کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ ہر کوئی اس حدیث کو جانتاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ جنگِ جمل سے قبل جب سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اہل کوفہ کو جنگ پر تیار کرنے کے لیے اپنا نمائندہ بھیجا تو وہ بانوے سالہ عمار یاسر ہی تھے۔ علی کرم اللہ وجہہ الکریم مالک اشتر جیسے کسی جوان، فصیح اور سیاسی شخص کوبھی بھیج سکتے تھے جس کا کوفہ میں اثر و رثوخ ہو لیکن عمار یاسر کو ہی بھیجا گیا۔ اس کا واحد مقصد ہی یہ تھا کہ حدیثِ عمار لوگوں کے ذہن میں تازہ ہوجائے۔ یہاں تک کہ شبیہِ رسول، فرزندِ رسول امام حسنؓ جو عمار یاسر کے ساتھ بھیجے گئے تھے، اس دورے کے دوران لوگوں کو دعوت نہ دیتے تھے بلکہ صرف عمار ہی تقریر کرتے تھے اور امام حسن ان کے ہمراہ ہوتے تھے۔

جنگ جمل میں مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے لشکر میں بیس ہزار اور اماں عائشہ سلام اللہ علیہا کے لشکر میں تیس ہزار لوگ تھے۔ مولا علی کے لشکر میں ہزاروں لوگ وہ بھی تھے جو خارجی ذہن رکھتے تھے یا کوفی مزاج کے حامل تھے اور مولا علی کے ساتھ جوش و جذبے کے ساتھ مخلص نہ تھے۔ دوسرے طرف لشکرِ جمل کی اماں عائشہ سلام اللہ علیہا سے عقیدت قریب قریب پرستش کے درجے پر پہنچی ہوئی تھی اور یہ لوگ انتقام کے جذبے سے بھرے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود جنگ کے دن بازی الٹنے کی ایک بڑی وجہ عمار یاسر ؓ کا میدان جنگ میں مولا علی کی طرف سے موجود ہونا تھا۔ لشکرِ جمل کا مورال عمار کو دیکھتے ہی گر گیا تھا اورلوگ جنگ چھوڑ چھوڑ کر جانے لگے تھے۔ یہاں تک کہ فوج کے سالار سیدّنا طلحہ رضی اللہ عنہ بھی عماررضی اللہ عنہ کو دیکھ کر میدان سے نکل گئے۔ اسی موقع پر مروان لعین نے انہیں تیر مار کر شہید کردیا۔

پھر صفین جیسی ہولناک جنگ میں جو تین دن میں ستر ہزار سے زیادہ جانیں نگل گئی، ایک بانوے سال کا بوڑھا شخص تین دنوں تک لڑتا رہا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ شامی لشکر میں سے بھی کوئی عمار کے قریب نہ آتا تھا کیونکہ اس حدیث کی شہرت اہلِ شام تک میں ہوچکی تھی۔

یہ حدیث کوئی مفرد حدیث بھی نہیں ہے بلکہ اس حدیث سے مزید کئی احادیث بھی وابستہ ہیں۔ ان میں سب سے اہم امیر معاویہ اور عمرو بن العاص ؓ کے شہادت عمار پر ردعمل کی احادیث ہیں جو تواتر سے متعدد کتب احادیث میں نقل ہوئی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شہادتِ عمار پر لشکرِ شام کے قائدین کے ردعمل اس کی سب سے مشہور اور مستند روایت مسند احمد بن حنبل میں ہے، وہی احمد بن حنبل جن سے حدیث عمار یاسر کی تضعیف منسوب کی جاتی ہے۔

کیا ستم ظریفی ہے کہ خود امیرِ شام نے اس حدیث کا نکار نہیں کیا بلکہ ایک مضحکہ خیز تاویل کی لیکن شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار اس حدیث کا ہی انکار کررہے ہیں جس کی صداقت شک و شبہ سے بالاتر ہے اور جو تسلسل سے دلائلِ نبوت میں بیان ہوتی رہی ہے۔

دراصل سارا مسئلہ ہی شاہوں سے زیادہ شاہوں کی خیر خواہی کا ہے۔ غامدی صاحب کے لیے دین ایک پروجیکٹ ہے۔ انہوں نے کسی نہ کسی طرح دین کوتوڑ موڑ کر ایک خاص طبقے کے لیے قابل قبول بنانا ہے۔ یہ طبقہ جو مذہب سے بیزار ہے لیکن مذہب کا انکار نہیں کرسکتا یا کرنا چاہتا، اس کے لیے دین کی آلٹریشن اس طرح کرنی ہے کہ مذہب میں سے مذہبیت کم ہوجائے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی مستقبل کے حوالے سے پیش گوئیاں کسی صورت اس طبقے کو ہضم نہیں ہوسکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ غامدی صاحب ایسی احادیث سے سخت گھبرا جاتے ہیں۔

دوسرا مسئلہ ہے کہ غامدی صاحب جس طبقے کی دینی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہیں وہ دولت مند ہے، اقتدار میں رہتا ہے، خود کو مشرکینِ مکہ اور دربارِ شام سے زیادہ مماثل پاتا ہے۔ اس کے لیے یہ قابلِ قبول نہیں کہ عمار یاسر جیسا غریب آدمی، کمزور آدمی اتنا اہم ہو کہ حق کا معیار بن جائے۔ پھر اس کی شہادت سے ملوکیت اور استحصال پر ضرب پڑے جو آج تک اس طبقے کے دم سے جاری ہے۔ لہذا حدیث عمار سے غامدی صاحب بری طرح ڈر جاتے ہیں اور اپنی ساری روشن خیالی، کشادہ فکر اور برداشت ایک طرف رکھ کر ایک کٹھ ملّا کی طرح ایک مستند حدیث کے حوالے سے کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ اس قابل ہی نہیں کہ اسے کسی سنجیدہ محفل میں پیش کیا جائے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حدیث اور تاریخ کے معاملے میں غامدی صاحب اتنے کمزور ہیں کہ ان کی رائے ہی اس قابل نہیں کہ اسے کسی سنجیدہ محفل میں پیش کیا جائے۔ لیکن چونکہ سماجی و علمی زوال کے باعث انہیں اہمیت حاصل ہوچکی ہے اور کچھ لوگ ان کی بات سنتے ہیں، لہذا اس پر با دلِ نخواستہ ہمیں بات کرنی پڑی۔

تیسرا مسئلہ غامدی صاحب کا یہ ہے کہ وہ شدت پسند مذہبی طبقات میں انتہائی غیر مقبول ہیں۔ اس حساس اور جذباتی مسئلے پر اس شدت پسند طبقے کی پسندیدہ پوزیشن لے کر ان مولویوں کے لیے خود کو قابلِ قبول بنا رہے ہیں۔

وما علینا الا البلاغ

احمد الیاس