فرقہ وارانہ اختلافات، برداشت اور فاشزم ۔ سلمان حیدر

ہمارے معتدل مزاج دوست عام طور ہر نیک نیتی سے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ بات کرتے ہوئے یا مذہبی رسومات ادا کرتے ہوئے یا مذہبی تہوار کے موقع پر تقریر یا خطاب کرتے ہوئے لوگوں کے مذہبی جذبات کا احترام کرنا اور انہیں بھڑکانے سے پرہیز کرنا ہم سب کے فائدے میں ہیں۔ بادی النظر میں اس بات میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا اور جب کہنے والا عام طور پر نیک انسان دوست شریف آدمی سمجھا جاتا ہو تو اسکی نیت یا ارادے پر شک کی گنجائش ہوتی بھی نہیں۔

اس بات میں لیکن ایک مسئلہ ایسا ہے جس بارے یہ نیک نیت افراد غور نہیں کرتے۔ اس تجویز کا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں مذہبی جذبات کی سہولت یا انہیں رکھنے کی اجازت اور بھڑکنے دینے کی عیاشی صرف ایک گروہ کو دی جاتی ہے جو تعداد اور وسائل میں زیادہ ہونے کی وجہ سے طاقتور بھی ہے اور تاریخی طور پر جارح ریاست کا حامی اور مددگار بھی۔ مثال کے طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ معاویہ اور ابوسفیان (جنہیں اہل سنت صحابہ سمجھتے اور ان کا احترام کرتے ہیں) پر سر عام لعنت بھیجنے سے اہل سنت کے جذبات بھڑکنے کا خدشہ ہے یا وہ بھڑک اٹھے ہیں۔ بعض ناصبی لوگ تو یزید کو بھی تابعی اور امیرالمومنین کہتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اس کا معکوس کیوں ممکن نہیں۔ اگر ایک دن چند بار معاویہ اور ابوسفیان کو برا کہنے اور ان پر لعنت بھیجنے سے اہل سنت کے جذبات بھڑک سکتے ہیں تو سارا سال انہی معاویہ اور ابوسفیان کو (جنہیں اہل تشیع منافق اور دشمنان اہلبیت سمجھتے ہیں اور ان کا احترام نہیں کرتے) صحابہ کہنے سے اہل تشیع کے جذبات کو بھڑکنے کی سہولت کیوں دستہاب نہیں۔ اگر لوگوں کو ایک صحابی کو منافق سمجھنے پر غصہ آ سکتا ہے تو ایک منافق کو صحابہ سمجھنے پر کیوں نہیں آ سکتا۔ اگر ایک صحابی کو لعنت اللہ کہنا صحابہ کی توہین ہے تو اتنی ہی توہین ایک منافق کو رضی اللہ کہنا بھی ہے۔

اگر مذہبی جذبات رکھنے اور انہیں بھڑکنے دینے کی سہولت صرف ایک فرقے کو دستیاب ہے جو اکثریتی ہے تو یہ دوسرے فرقے یا گروہ پر پہلے کا دین طاقت اور مذکورہ کیس میں سرکاری طاقت کے زور پر نافذ کرنا ہے۔ فاشزم اسی کے علاوہ کسی چیز کو نہیں کہتے۔ سو میری تمام نیک نیت ہمدرد اور سوچنے سمجھنے والے لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ بھلے کمزور کا ساتھ نہ دیں اس کے ساتھ مل کر فاشزم کے خلاف مزاحمت نہیں کر سکتے تو بالکل نہ کریں لیکن ہمدردی اور انسان دوستی کے پردے میں فاشزم کی مدد نہ کریں۔ آپ شرفاء ہیں ہمیں آپ کے جذبات اور انسان دوستی کا علم ہے ہم جانتے ہیں کہ آپ جو کچھ کہہ رہیں نیک نیتی سے کہہ رہے ہیں لیکن یہ بالواسطہ فاشزم کی مدد کرنا ہے۔ اس نیک نیتی اور شرافت کا کیا فائدہ جو فاشزم کے سامنے مزاحمت تو نہیں کر سکتی لیکن انجانے میں اس کی مدد کر رہی ہے۔

ہمارے بہت سے “لبرل” دوست یہ سمجھتے ہیں کہ ان تنازعات سے دور رہنا اور ان میں کسی طرح کی مداخلت نہ کرنا ہی لبرل ازم ہے۔ میری رائے ان سے مختلف ہے فاشزم کے خلاف مزاحمت کرنا لبرازم ہے۔ اس سے لاتعلق ہو جانا یا رہنا اور مذہب کے جبر اور اس کا سامنا کرنے والوں کو ایک برابر سمجھنا لبرل ازم نہیں ہے۔ کیا ہے اس کے لیے بقول یوسفی پشتو میں ایک بہت برا لفظ ہے اور ظاہر ہے باقی زبانوں میں بھی جو لفظ ہیں وہ کوئی خاص اچھے نہیں ہیں۔

****

صوفی سنی پس منظر کے حامل محمد عامر حسینی لکھتے ہیں

صحابہ کرام کی ذات پر طعن سے رُک جانا سنیت ہے مگر حقائق کو چھپانا یا مسخ کرنا سُنیت نہیں ہے..

اہلسنت کے ہاں جس آدمی کے کُفر قطعی کا ثبوت نہ ہو تو وہ نسبت صحابیت سے جدا نہیں ہوگا اور نہ ہی اُس پر طعن و تشنیع اور لعان جائز ہوگا-

لیکن کیا اہلسنت کے جمہور عُلماء نے یہ کہیں لکھا ہے کہ مسلمہ تاریخی حقائق بھی بیان نہ کیے جائیں ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری کی شرح فتح الباری کی جلد ہفتم میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے اُن کے بیٹے کی روایت بیان کی، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا

فَأَطْرَقَ ثُمَّ قَالَ: أَيْش أَقُوْلُ فِيْهِمَا؟ إِنَّ عَلِيًّا رضی اللہ عنہ كَانَ كَثِيْرَ الأَعْدَاءِ فَفَتَّشَ أَعْدَاؤُهُ لَهُ عَيْباً فَلَمْ يَجِدُوْا، فَجَاءُوْا إِلَى رَجُلٍ قَدْ حَارَبَهُ وَقَاتَلَهُ فَأَطْرَوْهُ كِيَادًا مِّنْهُمْ لَهُ.

اس پر انہوں نے (سوچنے کے انداز میں ) اپنا سر جھکا لیا، پھر سر اُٹھا کر فرمایا: میں اُن دونوں کے بارے میں کیا کہوں؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کثیر الاعداء (بہت دشمنوں والے ) تھے، ان کے دشمنوں نے اُن کے عیب تلاش کیے انہیں کچھ ہاتھ نہ آیا۔ پھروہ اُس شخص کی طرف متوجہ ہوئے جس نے اُن سے جنگ اور لڑائی کی تھی سو انہوں نے اپنی طرف سے سازش کے تحت ان کی تعریف میں مبالغہ آرائی شروع کر دی۔

ذكره ابن حجر العسقلاني في فتح الباري، 7/104