مولانا محمد اسحاق مدنی (1935ء – 2013ء) پاکستان کے ایک معروف محقق عالم دین تھے۔ 15 جون 1935ء میں فیصل آباد کے ایک چھوٹے سے زمین دار منشی کے گھر میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے ایف اے فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ ریاضی کا اضافی مضمون پڑھا۔سکول کے زمانہ ہی سے دل و دماغ دینی تعلیم کی طرف مائل تھے۔ مولانا مطالعہ کے اس حد تک شوقین تھے کہ گاؤں میں اپنی زمین میں ہل چلا رہے ہوتے اور ساتھ ساتھ ایک ہاتھ میں کتاب ہوتی اور مطالعہ بھی جاری رہتا۔ دینی کتب کو سمجھنے کے لیے عربی، فارسی، اردو اور انگریزی پر عبور حاصل کیا۔ وہ والد کے ساتھ کھیتی باڑی میں ہاتھ بھی بٹاتے رہے اور دینی کتب کا مطالعہ بھی جاری رہا۔ وہ علمی اور تحقیقی صلاحیتوں سے خوب بہرہ ور تھے۔ مولوی نور محمد سے صرف نحو کی کتب سبقًا پڑھیں۔ پھر کچھ کتب منطق، فلسفہ اور دیگر فنون کی کتب مولانا امداد الحق سے پڑھیں۔ عربی زبان و ادب میں مہارت حاصل کی اور تحقیقی میدان میں داخل ہو گئے۔
مولانا اسحاق اتحاد امت کے حامی اور داعی تھے۔ مختلف دینی مسائل پر وہ اپنے ایک منفرد پرجوش انداز سے کلام کرتے تھے۔ مولانا اسحاق پاکستان کے اُن محقق علمائے دین میں سے تھے جو اہل روایت ہونے کے ساتھ ساتھ شاندار دانش بھی رکھتے تھے اور شریعت کے مختلف مسائل پر کلام کرتے وقت نہ صرف صحیح روایات پر استدلال قائم کرتے تھے بلکہ اس سلسلہ میں عقلی دلائل سے حاضرین کو قائل کیے بنا نہ رہتے۔ مولانا اسحاق جذبات کے ساتھ ساتھ دلائل بھی قوی رکھتے تھے، یہی وجہ تھی کہ انہیں شیعہ سنی سمیت تمام مکاتب فکر میں نمایاں مقام حاصل تھا اور لوگ ان کے خطابات بڑے انہماک سے سنتے تھے۔ 1983ء تک وہ گاؤں کی مسجد میں خطابت کرتے رہے۔ بعد ازاں وہ فیصل اباد جامع مسجد کریمیہ میں ذمہ داری ادا کرنے لگے۔ ان کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ بہت سے لوگوں نے ان کے خطبات جمعہ سے متاثر ہوکر اپنے عقائد کی اصلاح کی۔ مولانا اسحاق 21 شوال 1434ھ بمطابق 28 اگست 2013ء کو وفات پا گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
مولانا اسحاق اتحاد امت کے زبردست مبلغ تھے۔ وہ کسی مسلک کو بھی شدت سے رد نہیں کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ آپ احباب میں سبھی مسالک کے لوگ تھے۔ اسحاق مدنی برملا کہا کرتے کہ: مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا اور میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔ محبت اہل بیت میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ اسلامی تاریخ کے جانگداز واقعات کو جس تحقیق سے حدیث کی روشنی میں پیش کیا اور تکفیری فرقہ پرست اور تنگ نظر عناصر کی مخالفت مول لی، اس کا کوئی ثانی نہیں