جاوید احمد غامدی اور اُن کے معتقدین خود کوعموما عقلیت پسند بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ دنیا اُنہیں ایک اعتدال پسند فکر رکھنے والے شخص کی حیثیت سے یاد رکھے۔ تاریخ و حدیث کی چھان پھٹک بھی بہت باریک بینی سے کرتے ہیں اور اکثر “حسبنا القران” جیسے دعوے بھی کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ خود کو روایتی مسلمانوں سے ہٹ کر مسلمانوں کا ایک اپ گریڈڈ یا سوپر لیٹو ورژن ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر موجود ان کے معتقدین آپ کو اکثر ایسا ظاہر کرتے نظر آینگے کہ جیسے اکیسویں صدی میں اسلام کی اصل اور خالص تشریح دراصل جاوید غامدی ہی کررہے ہیں۔
لیکن حقیقیت کیا ہے؟ کیا جاوید غامدی واقعی مختلف ہیں؟ کیا وہ واقعا ہر معاملے کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں؟ ایسا قطعا نہیں ہے۔ جاوید غامدی دراصل خارجیت کی جدید شکل ہیں۔ میں نے بار بار مشاہدہ کیا کہ عقلیت پسندی اور جدیدیت کا لبادہ اوڑھے ہوئے یہ گروہ خالصیت پسندی اور ‘وہابیت’ کی طرف مائل نظر آتا ہے، دیگر مسلک، فقہوں یا فرقوں کو اسلام کی بگڑی ہوئی یا غیر خالص شکل سمجھتا ہے، بہت ہی چنندہ انداز میں صحیح احادیث اور تاریخ کا انکار کرتا ہے، تصوف بارے نہایت سخت رائے رکھتا ہے اور اسے اسلام کے متوازی ایک علیحدہ دین قرار دیتا ہے، تاریخی تجزیات میں بنو امیہ اور دیگر ملوک کا دفاع کرتا ہے، اہلبیت کی تنقیص کرتا ہے، ابن تیمیہ، ابن قیم،فراہی، اصلاحی نظریات کے قریب ہے اور ناصبیت کی جانب مائل نظر آتا ہے۔
غامدی مکتب فکر واقعہ کربلا کو ایک سیاسی مسئلہ یا ایک حادثہ کہتا نظر آئے گا، کبھی ڈھکے چھپے لفظوں میں اور کبھی اعلانیہ یزید کا دفاع کرتا نظر آئے گا، کسی کو واقعہ کربلا کا الزام یزید کو دینے پر اعتراض ہوگا اور کبھی بذاتِ خود غامدی صاحب یزید کے بارے میں واضح موقف دینے سے گریز کرتے ہوئے فرماتے نظر آینگے کہ وہ واقعہ کربلا کے بارے میں حتمی رائے دینے کی “جسارت” نہیں کرسکتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایسی فکر کو کیا نام دیا جانا چاہئے۔
اس طبقے کے بارے میں میری رائے اُس وقت مزید مستحکم ہوجاتی ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ یہ لوگ شانِ اہلیبیتؑ اور بالخصوص شانِ حضرت علیؑ میں موجود احادیث و روایات پر بظاہر بہت عرق ریزی کے ساتھ تحقیق کرکے یہ کوشش کرتے نظر آتے ہیں کہ کسی طرح ان احادیث و روایات کو رد کردیا جائے البتہ ان کی تمام تر عرق ریزی وہاں پہنچ کر دم توڑ دیتی ہے جب معاملہ بنو امیہ یا دیگر اصحابِ رسول کا ہو۔ یہ صفین کے معاملے میں اور امیر شام کے معاملے میں ہوبہو وہی لائین پکڑتے نظر آتے ہیں جو عموما کسی ناصبی کی لائین ہوا کرتی ہے۔ آپ کو یقین نہ ہو تو جاوید غامدی کی حضرت علیؑ اور امیرِ شام کے اختلافات کے بارے میں رائے سن لیں۔
مجھے سخت حیرت ہوئی تھی جب میں نے تواتر کے ساتھ غامدی صاحب کے معتقدین کو کبھی ببابنگ دہل واقعہ کربلا میں یزید ملعون کو بے قصور کہتے دیکھا، عین ایامِ شہادتِ امام علیؑ میں امیرِ شام کے تذکرے کرتے دیکھا اور جب ہر سنی و شیعہ مسلمان عاشورہ سے قبل امام حسینؑ اور اہلیبیت اطہار کے مصائب یاد کررہا تھا تو کچھ لوگوں کو دیگر صحابہ کے تذکرے کرتے دیکھا۔ میں نے اس طبقے کو بارہا بنو اُمیہ کی وکالت کرتے بھی دیکھا ہے، چاہے اُس کیلئے انہیں اہلیبیت پر ہی تنقید کیوں نہ کرنی پڑجائے۔
اس طرزِ عمل کو آپ چاہیں تو بصد شوق عقلیت پسندی کا نام دے لیں، میری عقل اسے سوائے خارجیت کی ایک جدید شکل کے کوئی اور نام نہیں دے سکتی۔
وسیلے، تصوف، عید میلاد النبی اور کربلا سے متعلق غامدی صاحب اور اُن کے معتقدین کی رائے اور اُن کا طرزِ عمل دیکھ کر اس رائے کو مزید تقویت ملتی ہے۔
جاوید غامدی اور اُن کے جملہ معتقدین کی “ٹارگٹڈ آڈئنس” دراصل تکفیری اور خالصیت پرست سوچ رکھنے والے لوگ اور بالخصوص اُن کی نوجوان نسل ہے۔ انہی لوگوں کو غالبا غامدی صاحب نے متاثر بھی کیا ہے، جس کی وجہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
یہ طبقہ عقلیت پسندی اور اعتدال کا لبادہ اوڑھ کر اُن نوجوانوں کیلئے جال لگا کر بیٹھا ہے جو تکفیریت، طالبانیت اور خارجیت کی متشدد شکل سے بھاگتے ہیں۔ یہ طبقہ ان بھاگتے نوجوانوں کو اعتدال پسندی کے جال میں پھنسا کر وہی شربت مخلتلف بوتل میں بھر کر پیش کردیتا ہے، جس سے وہ بھاگ کر آئے تھے۔ آپ کو یقین نہ ہو تو سوشل میڈیا پر غامدی سکول کے لوگوں کا مائینڈ سیٹ دیکھ لیجئے، جاوید غامدی صاحب کی اُن مخصوص موضوعات پر رائے سن لیجئے جن کے بارے میں ایک عام مسلمان کی رائے ایک طرف ہوتی ہے اور ایک مخصوص طبقہ فکر کی ایک طرف۔
غامدی صاحب کے مقلدین کا المیہ یہ ہے کہ بچپن سے ان کو جو شخصی پرستش اور اسلامی رومانوی تاریخ کی کہانیاں سنائی گئی ہیں، ان کے پرخچے قران،صحیح احادیث اور تاریخ کی اولین کتابیں اڑا دیتی ہیں، رہ جاتا ہے بچپن کا عقیدہ اور درخشاں کہانیاں جن میں سب ہیرو ہیں اور ولن کوئی نہیں، علی معاویہ بھائی بھائی ہیں، کربلا کی جنگ ایک حادثہ تھی اور جنگ جمل میں سارا قصور یہودیوں کا تھا، یہ معلومات قران، حدیث اور تاریخ کے ان نسخوں میں محفوظ ہیں جو غامدی صاحب اور ان کے مقلدین پر اترے تھے