جاوید احمد غامدی، سید قطب اور سلیم صافی – عامر حسینی

میں نے اپنے سابقہ سٹیٹس میں سلیم صافی کی مائل بہ تکفیریت فکر اور خارجی گروہوں کی حمایت پر لکھا، اس دوران مجھے غامدی صاحب کے ساتھ ان کے انٹرویو کی زیر بحث ویڈیو میں آخری تین منٹ کی گفتگو تضادات سے بھری ہوئی ملی

سلیم صافی، جاوید احمد غامدی سے پوچھتے ہیں کہ آپ جہاد بارے جن خیالات کا اظہار کررہے ہیں وہ اس نے پہلی بار غامدی سے ہی سنے ہیں، اس پر غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ انہوں نے جہاد بارے جن خیالات کا اظہار کیا چودہ سوسال سے عالم اسلام کے تمام فقہا انہی خیالات کا اظہار کررہے ہیں ، اس پر سلیم صافی سوال کرتے ہیں کہ مولانا مودودی، سید قطب، یوسف القرضاوی اور علمائے دیوبند کے ںظریات جہاد بارے وہی ہیں جن کا اظہار سلیم صافی کررہے ہیں – اس پر غامدی صاحب ایک طرف تو مولانا مودودی، سید قطب، یوسف القرضاوی اور علمائے دیوبند سے بے انتہا عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کو اپنے سر کا تاج کہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ ان سب کے نظریات ” جہاد بالقتال ” بارے وہی تھے جن کا وہ اظہار کررہے ہیں ( بلکہ ضمنا وہ جہاد کشمیر کے حرام ہونے کے بارے میں سید مودودی کے فتوے کا زکر کرتا ہے خلانکہ وجہ وہ نہیں تھی جس کو غامدی صاحب نے بیان کیا بلکہ مولانا مودودی نے کشمیر کے جہاد کے حرام ہونے کا فتوی اس لئے دیا تھا کہ اس وقت تک مودودی صاحب کے نزدیک پاکستان ایک اسلامی ریاست نہیں بنا تھا ، مولانا مودودی کے نزدیک پاکستان اسلامی ریاست قرارداد مقاصد کے پاس ہونے کے بعد بنا تھا )

بہرحال میں یہاں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سلیم صافی اور غامدی دونوں نے یوسف القرضاوی کا نام لیا اور ان کو سید قطب کے ساتھ نتھی کیا حالانکہ سید قطب کے بارے میں یوسف القرضاوی کے خیالات بالکل ہی مختلف ہیں – اخوان المسلون کے اندر نظریاتی طور پر سید قطب کے خیالات اور افکار بارے بڑا اختلاف موجود ہے اور اس حوالے سے اخوان المسلون کی اس وقت جو مین سٹریم قیادت ہے وہ سید قطب کے خیالات کو تکفیریت سے بھرا پاتی ہے اور اس کو اخوان کے کارکنوں کے لئے نقصان دہ قرار دیتی ہے اور اس گروہ کے سب سے بڑے سرخیل خود ڈاکٹر یوسف القرضاوی ہیں –

جبکہ دوسرا گروپ جو اخوان کے اندر بھی ہے اور اخوان سے ٹوٹ کر بننے والی تنطیموں میں تو یہی گروپ اکثریت میں ہے وہ سید قطب کو اخوان المسلمون کی فکری اساس کا سب سے بڑا رہنما خیال کرتی ہے اور عرب کی اکثر سلفی جہادی تحریکیں سید قطب کو اپنا سب سے بڑا رہنماء تسلیم کرتی ہیں ، مجھے یہ گمان کرنے میں بڑی مشکل کا سامنا ہے کہ جاوید احمد غامدی کو ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی سید قطب پر تنقید اور قطب کو تکفیری رہنماقرار دینے والی بات کا علم نہیں ہوگا

ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے ایک مضمون لکھا جس کا عنوان ہے هل يكفّر “سيد قطب” مسلمي اليوم؟ یعنی کیا سید قطب عصر حاضر کے مسلمانوں کی تکفیر کرتا ہے ؟
سید قطب ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے بقول في ظلال القرآن طبعة عيسى الحلبي الثانية میں جلد 7 ص 269 کی عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ

لنص واضح تمام الوضوح: إن الكاتب لا يعتبر مسلما إلا من آمن بفكرته هذه، وهي الفئة التي يسميها “العصبة المسلمة”، وهي التي يجب أن تشعر بأنها وحدها هي “الأمة المسلمة”، وأن ما حولها ومن حولها ممن لم يدخلوا فيما دخلت فيه جاهلية وأهل جاهلية، أي هم مشركون وكفار، ليس لهم في الإسلام نصيب، وإن كانوا يصلون ويصومون ويزكون ويحجون! فكأنما المسلمون جميعا بمثابة مشركي مكة عند البعثة المحمدية، وكأنما دعوته بمثابة دعوة محمد صلى الله عليه وسلم؛ من آمن بها دخل في الإسلام، ومن لم يؤمن بها فهو جاهلي كافر حلال الدم!

پوری وضاحت سے یہ متن واضح کرتا ہے کہ اس کا لکھنے والا کسی کو مسلمان نہیں مانتا سوائے اس کے جو اس کی آئیڈیالوجی یا فکر پر ایمان رکھتا ہو اور وہ گروہ جسے یہ ”عصیبت اسلامی کا حامل گروہ” بتلاتا ہے – اور اس سے یہ واجب آتا ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ اس کے نزدیک واحد وہی گروہ امت مسلمہ ہے – اور جو اس گروہ میں داخل نہ ہو وہ جاہلیت میں داخل ہوجاتا ہے اور وہ اہل جاہلیت میں شمار ہوتا ہے – اور اہل جاہلیہ سے مراد مشرکین و کفار ہیں اور ان کے نصیب میں اسلام نہیں ہے چاہے وہ نماز پڑھتے ہوں، روزے رکھتے ہوں، متقی و پرہیزگار ہوں، گویا باقی مسلمان اس کے نزدیک ایسے ہی مشرکین ہیں جیسے بعثت محمدیہ کے وقت مشرکین مکّہ تھے اور ان کو دعوت ویسے ہی دی جائے گی جیسے دعوت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشرکین مکّہ کے لئے تھی اور جو اس دعوت پر ایمان لے آیا وہ اسلام میں داخل ہوگیا اور جو اس پر ایمان نہ لایا وہ جاہلی کافر ہے اور اس کا خون حلال ہوگیا

ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اپنے اس مضمون میں سید قطب کی تفسیر فی ظلال القرآن ، معالم فی اطریق اور العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام ( ان تینوں کتب کا ترجمہ جماعت اسلامی کے کتب گھر معارف اسلامی سے شایع ہوا اور ان کے کئی ایڈیشن جماعت اسلامی کے ماننے والوں بہت مقبول ہوئے ) سے کئی اقتباسات پیش کئے اور دکھایا کہ کیسے سید قطب مسلمانوں کی اس اکثریت کو جو اس کی دعوت سے اتفاق نہیں کرتی کافر، مشرک ، جاہلی کافر قرار دیتا ہے
لیکن ڈاکٹر یوسف القرضاوی کو سلیم صافی سید قطب اور مودودی کے ساتھ کھڑا کردیتے ہیں ، میں یہاں پر یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ سلیم صافی نے یہاں پر علمائے دیوبند کا زکر کیا تو وہان مجھے سبھی علمائے دیوبند ایک صف میں کھڑے نظر نہیں آتے، مولانا محمود حسن دیوبندی اسیر مالٹا کا مجھے کہیں بھی ایسا ایک بھی فتوی نہیں ملا جہاں انھوں نے ” عام مسلمانوں کو مشرک ، جاہلی کافر ٹھہرایا ہو اور ہندوستان کے ان مسلمانوں کے خلاف جہاد کا فتوی دے ڈالا ہو جو ان کی تحریک پر اٹھ کھڑے نہ ہوئے ہوں ، ہاں سید اسماعیل دھلوی اور سید احمد بریلوی کو اس صف میں کھڑا ضرور کیا جاسکتا ہے

ڈاکٹر یوسف القرضاوی مزید لکھتے ہیں

ومن أجل ذلك أكد سيد قطب مرات ومرات العناية بدعوة الناس الذين “يسمون أنفسهم مسلمين” إلى اعتناق العقيدة قبل كل شيء، قبل أن تدعوهم إلى التشريع الإسلامي، أو النظام الإسلامي، بل الواجب الأساسي أن ندعوهم ليسلموا أولا؛ ليشهدوا أن لا إله إلا الله بمفهومها القطبي الجديد، وبهذا يخرجون من الجاهلية التي ارتكسوا فيها، ويدخلون في الإسلام.

اور یہی وجہ ہے جس کا زکر ہم نے پہلے بھی کیا کہ سید قطب بار بار یہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ان سے سب چیزوں سے پہلے عقیدے کی درستی کا مطالبہ ہوگا ، اس سے بھی پہلے کہ ہم ان کو اسلامی قانون یا اسلامی نظام کی طرف دعوت دیں یہ واجب ہوگا کہ ہم ان سے یہ مطالبہ کریں کہ سب سے پہلے وہ اسلام لائیں اور گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ گواہی جدید قطبی معنوں میں دیں اور ایسا کرنے سے وا جاہلیہ سے نکلیں گے جس میں وہ مبتلاء تھے اور اس طرح سے وہ اسلام میں داخل ہوجائیں گے

ڈاکٹر یوسف القرضاوی کہتے ہیں کہ سید قطب لاالہ الا اللہ کی جو تعریف کرتے ہیں یہ تعریف نہ اللہ نے بیان کی ، نہ رسول اللہ نے ، نہ صحابہ نے ، نہ تابعین نے کسی نے نہیں کی

اس تفصیل سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ جاوید احمد غامدی جس تعریف جہاد کو فساد بتلارہے ہیں وہ تو ان کے ممدوح اور ان کے ہیرو سید قطب نے بھی کی، سید مودودی نے بھی کی اور کئی ایک دیوبندی مولویوں نے بھی کی ( مفتی نظام الدین شامزئی کا فتوی جہاد ہو یا اسامہ بن لادن کا فتوی جہاد یا پھر داعش کا اپنی بربریت کے ثبوت میں فتاوے پیش کرنے کا عمل یہ سب کہیں نہ کہیں سید قطب اور اس سے پہلے سید اسماعیل دھلوی ، اور اس سے پہلے محمد بن عبدالوہاب اور شیخ ابن تیمیہ کی فکر سے مل جاتے ہیں ) غامدی صاحب کہہ رہے تھے کہ وہ سیاست دان یا صحافی نہیں ہیں لیکن ڈاکٹر یوسف القرضاوی ، سید قطب ، سید مودودی کے معاملے میں وہ سیاست اور مصلحت پسند صحافت کا شکار نظر آتے ہیں، ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی سید قطب پر یہ تحریر کئی جگہوں پر موجود ہے ، ایک خود ان کے اپنے آفیشل فیس بک پیج پر موجود ہے جس کا لنک یہ ہے

اس لنک پر آپ پڑھ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی کہتے ہیں کہ سید قطب کی تین قطب جن کا میں نے اوپر زکر بھی کیا میں کئی عبارات ایسی ہیں اور ایسے تصورات ہیں جنھوں نے ان کے ماننے والوں میں تکفیری فکر کی بنیاد رکھی بلکہ مسلمانوں کی تکفیر کا راستہ کھول دیا ، ڈاکٹر یوسف قرضاوی کہتے ہیں کہ یہ سید قطب کی تحریریں تھیں جس کی بنیاد پر مصر میں ایسے تکفیری گروپ سامنے آئے جنھوں نے اپنے ہم وطنوں اور مسلمانوں کے خلاف قتال کیا ، ان کی جان، مال آبرو، عزت سب کو حلال کردیا اور یوسف القرضاوی نے صاف صاف لکھا ہے کہ اخوان المسلون کے کئی مرکزی رہنماؤں اور سکالرز نے اس تکفیری راستے کی مخالفت کی ، اسے فساد سے تعبیر کیا اور جہاد ماننے سے انکار کرڈالا اس مین اخوان کے مرشد عام بھی شامل ہیں
سید یوسف قرضاوی کے الفاظ ملاحظہ کرلیں

هذه الفكرة الخطيرة التي فتحت أبواب التكفير والعنف واستباحة الدماء والأموال من المسلمين، وقامت عليها ـ في أوطاننا الإسلامية ـ جماعات تقاتل قومها، وتحارب أهل وطنها، هي الجديرة بأن يقف العلماء والدعاء في وجهها، ويتصدوا لبيان ما فيها من انحراف عن الأحكام الشرعية المقررة. ويبينوا بطلانها بالأدلة من كتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم، مسترشدين بأقوال الأئمة والراسخين من علماء السلف والخلف.
ولذلك وقف جمهور علماء الأمة، بل كل الأمة ـ إلا عالما أو عالمين ـ ضد هذا التوجه، أذكر من هؤلاء: الأستاذ حسن الهضيبي المرشد الثاني للإخوان، والشيخ محمد الغزالي، والشيخ سيد سابق، و د.عبد العزيز كامل، و د. محمد فتحي عثمان، وأ. فريد عبد الخالق، و د.محمد عمارة، ود. محمد سليم العوا، ود. أحمد العسال، ود. حسن الشافعي، ود. حسن الترابي، ود.عصام البشير، ود. أحمد علي الإمام، والشيخ أبا الحسن الندوي، ود. مصطفى السباعي، والشيخ مصطفى الزرقا، ود. وهبة الزحيلي، ود. البوطي، وعامة علماء الأزهر، وديوبند، والزيتونة والقرويين، وسائر الجامعات والكليات والمدارس الإسلامية.

یوسف القرضاوی نے اس میں علمائے دیوبند کا زکر بھی کیا ہے جنھوں نے اس تکفیری فکر کی مخالفت کی