تصوف کو خلاف اسلام اور یا رسول الله کہنے کو غلیظ ترین شرک قراردے کر جاوید احمد غامدی تکفیری سوچ اور عدم برداشت کو پروان چڑھا رہے ہیں
انٹرنیٹ پر غامدی صاحب کے مختلف مضامین اور تقریریں موجود ہیں جن میں وہ تصوف اور اہل تصوف کو گمراہ اور خارج اس اسلام قرار دے رہے ہیں – آج سے چند سال قبل ٢٠١٣ میں جیو پر تصوف سے متعلق ٹیلی کاسٹ کیے جانے والے پروگرام “الف” میں جاوید غامدی نے، صوفیاء کرام اور اکابرین کہ جن کی بدولت برصغیر میں اسلام نے نشوونما پائی، کے نظریہ روحانیت یعنی تصوف کونہ صرف ہدفِ تنقید بنایا بلکہ تصوف کو خارجِ ازاسلام قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے اسے ہندوازم ، بدھ ازم وغیرہ سے ملانے کی کوشش کی ۔اس سلسلے میں تصوف و صوفیا کرام کےلئے انتہائ سخت الفاظ جیسا کہ شرک و گمراہی استعمال کئے گئے۔ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ تصوف اسلام کے متوازی ایک دین ہے – یہ تکفیری سوچ کی نہایت شائستہ قسم ہے –
تصوف من کی دنیا میں ڈوب کر سراغ زندگی پا نے کا نام ہے، یہ مقام عشق ہے جس میں اہلبیت عظام اور اولیا الله کو نمایاں مقام حاصل ہے ۔ عقلیت پسندوں اور مادیت پرستوں کو تصوف کا شعور حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ روح سے واصل نہیں ہوتے ۔روحانیت اللہ کی تلاش میں ارتکاز توجہ سے استغراق حاصل کر کے حقیقت الحقیقت سے واقف ہو جانا ہے۔ قلبی مشاہدات اور روحانی کیفیات کا نام تصوف ہے۔صوفیا کے دل کی ہر دھڑکن اللہ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔حضرت خواجہ غریب نواز فرماتے ہیں – یار دم بدم و بار بار می آید – تصوف ایک ایسا مکتب ہےجس میں انسان کو انبیاء علیہم السلام کی طرز فکر کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے جہاں سے جب تعلیم کی تکمیل ہوتی ہے تو وہ آدمی سے ممتاز ہو کر انسان بن جاتا ہے اور اس کے اندر خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہِ سلم کی طرز فکر وطرز زندگی کی جھلک نظر آتی ہے۔ اہل تصوف ہر طرح کی تکفیری، فرقہ وارانہ اور متعصب سوچ سے دور ہوتے ہیں اور ہر مذہب، فرقے، مسلک اور رنگ و نسل کے شخص کے ساتھ محبت اور خلوص کا برتاؤ کرتے ہیں ۔تصوف گانے بجانے اور ڈھول و دھمال کا نام نہیں، یہ تو بے ضرر ثقافتی مراسم ہیں جو مختلف طبقات کے لوگ اپنا عشق ظاہر کرنے کے لیے اختیار کرتے ہیں ۔ جس طرح خانہ کعبہ کا طواف کرنے والے بعض بد طینت لوگ جو جیب کاٹنے کے منتظر رہتے ہیں کی وجہ سے بیت الله کی توقیر میں کمی نہیں آتی، اسی طرح چند لوگ جو مزاروں پر بھنگ اور چرس کا نشہ کرتے ہیں یا مزار کو سجدے کرتے ہیں کی وجہ سے مزار، صاحب مزار اور تصوف کی ہتک نہیں کی جا سکتی، لیکن تصوف کو خارج از اسلام قرار دینا یا اس کو ہندو یا بدھ مت کے ساتھ جوڑنا انتہائی سنگین مذاق اور لاعلمی کی انتہا ہے – اسی طرح کے تکفیری نظریات اور رویوں سے متاثر ہو کر تکفیری خوارج مزارات مقدس جیسا کہ داتا گنج بخش، لال شہباز قلندر، عبد الله شاہ غازی، رحمان بابا، جھل مگسی وغیرہ پر حملے کرتے ہیں