بے گناہ عورتوں اور بچوں کا قتل: جاوید غامدی صاحب کا استدلال طالبان کے استدلال سے کیونکر بہتر ہے؟

معروف عالم دین جاوید احمد غامدی نے یکم جنوری ٢٠١٢ کو تحریک طالبان پاکستان کے پاکستانی میڈیا کے نام خط کے جواب میں اپنے مسلک اور رائے کی وضاحت کی – ہم جاوید غامدی صاحب کے شائستہ اسلوب کی تعریف کرتے ہیں اور اس بات کی قدر کرتے ہیں کہ اگرچہ غامدی صاحب صوفی، سنی بریلوی اور شیعہ مسلمانوں کو گمراہ مسلمان سمجھتے ہیں لیکن ان ‘گمراہ’ مسلمانوں کے خلاف تشدد کو جائز نہیں سمجھتے – ہمارا اصولی موقف ہے کہ جو شخص بھی سنی، شیعہ، بریلوی، دیوبندی، سلفی افراد یا دوسرے مسلک یا فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں گمراہ، بدعتی، کافر یا مشرک قرار دیتا ہے وہ در حقیقت معاشرے میں عدم برداشت اور تشدد کی راہ ہموار کرتا ہے
اب آتے ہیں غامدی صاحب کے بیان کی جانب جس میں انہوں نے طالبان کے پاکستانی میڈیا کے نام خط کے جواب میں اپنے موقف کو ظاہر کیا اگرچہ ہمیں غامدی صاحب کے موقف کی کچھ باتوں سے اتفاق ہے ہمیں یہ دیکھ کر شدید حیرت ہوئی اور صدمہ پہنچا کہ غامدی صاحب نے رحمت عالم حضرت محمد رسول الله صلی الله علیہ وآله وسلم سےایسی جھوٹی حدیثوں اور روایات کو منسوب کر دیا جن میں رسول پاک مشرکوں کے ساتھ بے گناہ عورتوں اور بچوں کے بلا تخصیص قتل کرنے کا حکم صادر کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں
تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے نبی رحمت سے ایسی شقاوت منسوب کرنے کی رسم فقط تکفیری خوارج کے ہاں پائی جاتی ہے
بھلا ہم تصور کر سکتے ہیں کہ رسول رحمت بے گناہ بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے کا حکم دیں گے؟
اگر ہم ان جھوٹی روایات کو درست تسلیم کر لیں تو غامدی صاحب اور طالبان کے متشدد نظریات میں زیادہ فرق نظر نہیں آتا بلکہ اسلامی طور پر بے گناہ لوگوں کے خلاف تشدد کا جواز فراہم ہو جاتا ہے اسی بنیاد پر تحریک طالبان کا کہنا ہے کہ حضرت محمد (ص) نے جنگ میں عورتوں اور بچوں کو مارنے کا حکم دیا۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بنی جذیمہ کی طرف بھیجا ۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے انہیں اسلام کی دعوت دی لیکن انہیں ” اسلمنا “ ( ہم اسلام لائے ) کہنا نہیں آتا تھا ، اس کے بجائے وہ ” صبانا ، صبانا “ ( ہم بے دین ہوگئے ، یعنی اپنے آبائی دین سے ہٹ گئے ) کہنے لگے ۔ خالد رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل کر نا اور قید کر نا شروع کر دیا اور پھر ہم میں سے ہر شخص کو اس کا قیدی اس کی حفاظت کے لیے دے دیا پھرجب ایک دن خالد رضی اللہ عنہ نے ہم سب کو حکم دیا کہ ہم اپنے قیدیوں کو قتل کر دیں ۔ میں نے کہا اللہ کی قسم میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گااور نہ میرے ساتھیوں میں کوئی اپنے قیدی کو قتل کرے گاآخر جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آ پ سے صورت حال بیان کیا تو آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعاکی ۔ اے اللہ ! میں اس فعل سے بیزار ی کا اعلان کرتاہوں ، جو خالد نے کیا ۔ دومرتبہ آپ نے یہی فرمایا
وا ان قولوا اسلمنا قال فضعوا السلاح فوضعوہ فقال لھم استاسروا فاستاسروا القوم فامر بعضھم فکتف بعضا وفرقھم فی اصحابہ فلما کان فی السحر نادی خالد بن الولید کان معھم اسیر فلیضرب عنقہ فاما بنو سلیم فقتلوا من کان فی ایدیھم واما المھاجرون والانصار فارسلوا اسراھم فبلغ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ما صنع خالد فقال اللہم انی ابرا الیک مما صنع خالد وبعث علیا یودی لھم قتلاھم وما ذھب منھم ( زاد المعاد )
یعنی جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ عزی کو ختم کر کے لوٹے اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ ہی میں موجود تھے ۔ آپ نے ان کو بنی جذیمہ کی طرف تبلیغ کی غرض سے بھیجا اور لڑائی کے لیے نہیں بھیجا تھا ۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ ساڑھے تین سو مہاجر اور انصار صحا بیوں کے ساتھ نکلے ۔ کچھ بنو سلیم کے لوگ بھی ان کے ساتھ تھے ۔ جب وہ بنو جذیمہ کے یہا ں پہنچے تو انہوں نے ان سے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو؟ وہ بولے ہم مسلمان ہیں ، نمازی ہیں ، ہم نے حضرت محمد ا کاکلمہ پڑھا ہوا ہے اور ہم نے اپنے والانوں میں مساجد بھی بنا رکھی ہیں اور ہم وہاںاذان بھی دیتے ہیں ، وہ سب ہتھیار بند تھے ۔ حضرت خالد نے پوچھا کہ تمہارے جسموں پر یہ ہتھیار کیوں ہیں ؟ وہ بولے کہ ایک عرب قوم کے اور ہما رے درمیان عداوت چل رہی ہے ۔ ہما را گمان ہوا کہ شاید تم وہی لوگ ہو ۔ یہ بھی منقول ہے کہ ان لوگوں نے بجائے اسلمنا کے صبانا صبانا کہا کہ ہم اپنے پرانے دین سے ہٹ گئے ہیں ۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ ہتھیا ر اتاردو۔ انہوں نے ہتھیار اتار دئے اور خالد رضی اللہ عنہ نے ان کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ پس حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے ان سب کو قید کر لیا اور ان کے ہاتھ باندھ دئے۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے ساتھیوں میں حفاظت کے لیے تقسیم کر دیا ۔ صبح کے وقت انہوں نے پکا ر اکہ جن کے پاس جس قدر بھی قیدی ہوں وہ ان کو قتل کر دیں ۔ بنوسلیم نے تو اپنے قیدی قتل کردئے مگر انصار اور مہاجرین نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے اس حکم کونہیں مانا اور ان قیدیوں کو آزاد کر دیا ۔ جب اس واقعہ کی خبر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے اس فعل سے اظہاربیزاری فرمایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وہا ں بھیجا تاکہ جو لوگ قتل ہوے ہیں ان کا فدیہ اداکیا جائے اور ان کے نقصان کی تلافی کی جائے۔صحیح بخاری -> کتاب المغازی & مشکوة، قیدیوں کے احکام کا بیان : حضرت خالد کی طرف سے عدم احتیاط کا ایک واقعہ
ہم امید کرتے ہیں کہ غامدی صاحب اپنے موقف پر اعلانیہ نظر ثانی کریں گے اور اپنے ناظرین اور مقلدین کے سامنے اپنی پوزیشن واضح فرمائیں گے

Summary: In his response (dated 1 January 2012) to Taliban’s letter to Pakistani media, renowned scholar Javed Ahmed Ghamidi quotes a tradition in which he suggests that Prophet Muhammad (peace be upon him and his progeny) allowed the slaughter of innocent children and women along with polytheist men. We argue that this dangerous line of reasoning is no better than Taliban’s rationalization of violence.

The Taliban’s Line of Reasoning
Javed Ahmad Ghamidi
Extract
3. Polytheism, disbelief and apostasy are indeed grave crimes; however, no human being can punish another human being for these crimes. This is the right of God alone. In the Hereafter too, He will punish them for these crimes and in this world it is He Who does so if He intends to do so. The matter of the Hereafter is not under discussion here. In this world, this punishment takes place in the following manner: when the Almighty decides to reward and punish people in this very world on the basis of their deeds, He sends His messenger towards them. This messenger conclusively communicates the truth to these people such that they are left with no excuse before God to deny it. After that the verdict of God is passed and those people who even after the conclusive communication of the truth insist on disbelief and polytheism are punished in this world. This is an established practice of God which the Qur’an describes in the following words: “And for each community, there is a messenger. Then when their messenger comes, their fate is decided with full justice and they are not wronged.” (10:47)
This punishment is generally given in the manner it was given to the people of Noah (sws), the people of Hud (sws), the people of Salih (sws), the people of Lot (sws), the people of Shu‘ayb (sws) and to some other nations. However, if a messenger has a substantial number of companions and after migrating from their people, they are also able to gain political authority at some place, then this punishment is implemented through the swords of the messenger and his companions. It is this second situation which arose in the case of Muhammad (sws). Thus the active adversaries among his opponents first met their fate; after this a general order of killing the rest of the adversaries was given. For them the declaration of this punishment came in 9th hijrah on the day of hajj-i akbar. Following are the words of this directive mentioned in the Qur’an: “Then when the sacred months [after the hajj-i akbar] have passed, kill these Idolaters wherever you find them, and [for this objective] capture them and besiege them, and lie in wait for them in each and every ambush. But if they repent and are diligent in the prayer, and give zakāh, then leave them alone.” (9:5)
This is the punishment of God which was meted out to the Idolaters of Arabia. When such a punishment descends on the perpetrators, no exception is given to women and children and they are destroyed the way the nations of Noah (sws) Hud (sws), Salih, Lot (sws) and Shu‘ayb (sws) were destroyed. It is thus mentioned in various narratives that when troops were sent to implement this punishment, he was asked what to do about the women and children of the Idolaters who would also be there; at this, the Prophet (sws) replied that they were from among them.3 It was these people about whom he had directed that if they embraced faith at that time and then became apostates and later adopted disbelief they would deserve this same punishment of death.4
In spite of conclusive communication of the truth, the punishment of these people was deferred till 9 AH because they were not active adversaries and there was a chance that they might repent and hence be saved from punishment. On the other hand, people who besides their rejection of the truth became open and active adversaries were not given this respite. They were killed whenever it became possible. Abu Rafi‘, Ka‘b ibn Ashraf, ‘Abdullah ibn Khattal, his slave-girls and from among the prisoners of the battles of Badr and Uhud ‘Uqbah ibn Abi Mu‘it, Nadr ibn al-Harith and Abu ‘Izzah et al. were killed for this very reason.
This was the verdict of God which is necessarily implemented after conclusive communication of the truth by His messengers.


Source: http://www.javedahmadghamidi.com/index.php/editorials/view/talibans-line-of-reasoning