کئی دنوں سے سوچ رہا ہوں کہ جناب علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ کی شخصیت پر کچھ لکھوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر بار اپنی علمی اور ذہنی کم مائیگی آڑے آجاتی ہے۔ کئی بار لکھا، لیکن مٹا دیا، اس شدید احساس ندامت کے ساتھ کہ موضوع سے ناانصافی ہو رہی ہے۔ میرے خیال میں جناب علی مرتضی کی شخصیت ایک عظیم ترین امتراج ہے جس کی کوئی دوسری مثال ہمیں نہ صرف اپنی تاریخ بلکہ تاریخ عالم میں بھی بہت کم ملتی ہے۔ کسی بھی انسانی شخصت کے بنیادی طور پر تین پہلو ہوتے ہیں: عقل، عرفان، شجاعت۔
عقل سر تا سر ایک دماغی و ذہنی استعداد اور دماغی قابلیت ہے جس کا تعلق اشیا کے خارج اور اُن کے باہمی تال میل کو سمجھنے سے ہے۔ یہ حواس خمسہ کے ذریعے موصول ہونے موجودات کے بارے میں درست راے قائم کرنے کا نام ہے۔ عقل سے آراستہ شخص علت و معلول کے رشتوں کا بہت گہرا ادراک رکھتا ہے اور روزمرہ کے حالات میں معاملہ فہمی کا بھرپور مظاہرہ کرتا ہے۔
جہاں تک عرفان کا تعلق ہے یہ ایک باطنی و روحانی خوبی اور اہلیت ہے۔ یہ خارج میں موجود اشیا اور احوال کی بجاے، اُن کے باطن کو سمجھنے اور ان کے پیچھے کارفرما کسی ارفع مشیت و مقصدیت تک رسائی حاصل کرنے کا نام ہے۔ ہماری مسلم روایت میں اس کے لیے لفظ حکمت بھی مستعمل ہے۔ حکمت و عرفان کی سب سے مستحکم بنیاد یہی ہے کہ مادے کی یہ کائنات اپنے اندرکوئی ایسا اُصول نہیں رکھتی جس کے سبب یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکے کہ یہ اپنے وجود کی کوئی قابل ذکر توجیہہ پیش کر سکتی ہے۔ عرفان کا یہ سفر عمودی ہے اور ذاتِ شخصی سے شروع ہو کر کسی ابدی حقیقت پر منتج ہوتا ہے۔
شخصیت کا تیسرا پہلو شجاعت ہے جسمانی اور طبعیاتی ہے۔ اس کا تعلق انسان کے حوصلے اور اس کی جسمانی قوت، اعضا کی طاقت، ہڈیوں کی مضبوطی سے ہے۔
شجاعت کا ایک ذیلی نفسیاتی پہلو بھی ہے جس کا تعلق دماغ سے ہے جس میں عزم اور استقلال جیسی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ لیکن یہ ذیلی پہلو خالص جسمانی کمک کی دستیابی کے بغیر نشنہ تکمیل رہتا ہے۔
ہر انسانی شخصیت ان تین اجزاے ترکیبی سے وجود میں آتی ہے اور یہ تینوں عناصر کسی نہ کسی درجے میں ایک انسان میں ضرور پاے جاتے ہیں۔ تاریخ میں وہ لوگ جن میں عقل کا پہلو کسی غیر معمولی انداز میں پایا گیا، وہ فلسفی اور عقلا کہلاے جنہوں نے فہم و خرد کی دشت پیمائی کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ اس دشت میں چلنے والوں کا مقدر مختلف اور اکثر اوقات باہم متصادم راستے ہی رہے۔ ان کے ہاں نہ تو کوئی متعین راستہ رہا اور نہ کوئی مشترک منزل۔
انسانوں کا دوسرا گروہ جس میں حکمت و عرفان کا ظہور ایک اعلٰی سطح پر ہوا، وہ اہل تصوف و معرفت کہلاے۔ ان کے ہاں حقیقت و مجاز میں فرق بہت بینادی اور اُصولی ہے۔ تمام مظاہر و موجودات، استعارے اور اشارے ہیں اور حقیقت ان سے بہت بڑھ کر اور بہت پرے ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو قطرے میں سمندر اور ذرے میں بیاباں دیکھ لیتے ہیں۔ ان کے ہاں یہ کائنات ایک حجاب ہے جس کے پیچھے ایک ابدی اور برتر حقیقت کارفرما ہے۔ عجب بات ہے کہ ان کے ہاں راستے تو کسی حد تک مختلف ہیں لیکن منزلوں میں غیر معمولی اشتراک پایا جاتا ہے۔
اور آخر میں وہ لوگ جن کی شخصیت میں شجاعت کا عنصر غالب ہوتا ہے وہ سپہ گری اور قافلوں کی علم برداری کا نصیب لیکر پیدا ہوتے ہیں۔ میدان کارزار ان لوگوں کا مسکن قرار پاتا ہے۔ اپنے مقصد اور نصب العین کی خاطر جان دینا ان کی سب سے بڑی آرزو ٹھہرتی ہے۔
شخصیت انسانی کے ان تین بنیادی عناصر کے اوج کی مرکزیت کو نگاہ میں رکھتے ہوے جب ہم جناب علی المرتضی کی شخصیت کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کون سا پہلو کس دوسرے پہلو پر حاوی ہے۔ ذہن حکمت و دانش کی بلندی کی طرف جاتا ہے تو دوسرے ہی لمجے عقل و خرد کا کوہ ہمالیہ اسے اپنے طرف کھینچ لیتا ہے۔ ابھی انسان اسی کشمکش عہدہ برا نہیں ہو پاتا کہ اس کے سامنے شجاعت و بہادری کے ان گنت آفاق بے نقاب ہوجاتے ہیں۔ ہر پہلو دوسرے سے برتر، ہر عنصر پہلے سے زیادہ ارفع و بالا۔ یوں انسان، انسانی شخصیت کے ایک عظیم ترین نمونے کے طلسم کدے میں کھو جاتا ہے اور رب کی خلاق قدرت کے سامنے سرنگوں ہو جاتا ہے۔
اللہ کو کروڑوں رحمتیں ہوں، نجفِ اشرف و مکرم پر، اور اُس مرقد عالی پر جہاں جناب علی المرتضی آسودہ خاک ہیں۔ یقیناً زمیں کا وہ ٹکڑا آسماں ہے۔