‎غامدی صاحب! خالصیت اور تکفیریت سے گریز بہتر ہے

‎مسلمانوں میں سائنس کے عروج کے زمانے کو زوال میں بدلنے میں اندھی عقیدت اور علمِ کلام کا مرکزی کردار رہا ہے۔

‎تقریباً ایک ہزار سال پہلے علمِ کلام کے نام سے عقائد کو خالص اور دوسروں کو کافر بنانے کا فن سامنے آیا۔ اس کے سرخیل امام غزالی تھے۔ انہوں نے نئے خیالات کو قرآن و حدیث پر پرکھ کر کافر یا مسلمان کہنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ابنِ سینا اور الفارابی وغیرہ کو کافر قرار دے کر ان کی پیروی کرنے والوں کی جان اور ایمان خطرے میں ڈالے۔ تب سے اب تک علم کے خلاف “اسلام کو خطرہ” کا نعرہ لگ رہا ہے۔

‎اگرچہ منگول لشکر کی طرف سے بغداد میں کی جانے والی تباہی اور دار الحکمہ کو جلانے کو مسلمانوں کے زریں عہد کے خاتمے کا باضابطہ اعلان کہا جا سکتا ہے، لیکن اس تباہی کے بعد نہ اٹھ سکنے کی وجوہات پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ آخر جو لوگ صفر سے شروع کر کے عروج تک پہنچے تھے، وہ اس نقصان کے بعد دوبارہ بھی اٹھ سکتے تھے کیونکہ اب کی بار تو بغداد سے باہر انکے بڑوں کی علمی کتب موجود تھیں جن سے بعد میں یورپ نے فائدہ اٹھایا۔ کچھ ہی عرصے بعد مسلمانوں نے سیاسی اور معاشی اقتدار سلطنت عثمانیہ، سلطنت صفویہ اور سلطنت مغلیہ کی شکل میں بحال بھی کر لیا لیکن سائنسی زوال جاری رہا۔ اسکی وجہ خالصیت اور تکفیر کی دو دھاری تلوار تھی۔ امام غزالی کی شروع کردہ تکفیر کو ابنِ تیمیہ نے عروج دیا اور ہر طرف جہالت ناچنے لگی۔ ابن تیمیہ نے صوفیا کی تکفیر کی، ابن عربی اور ان کے صوفی خیالات کا رد کیا، ابن تیمیہ نے “الرد علی المنطقیین” لکھ کر منطق کا ہی پتہ کاٹ دیا۔

‎آج کل جاوید غامدی صاحب کے سوشل میڈیا پیجز اور چینلز تصوف اور شرک کے خلاف لفظی جہاد کر رہے ہیں، ابن عربی اور دیگر صوفیا اور اولیا غامدی صاحب کے خاص نشانے پر ہیں ۔ حالانکہ غامدی صاحب خود اسی تکفیری اور خالصی سوچ سے ڈر کر پاکستان سے بھاگے اور امریکہ جیسے مشرکوں کے ملک میں دبک کر بیٹھے ہیں۔ غامدی صاحب آجکل اہل تصوف کے خلاف شوگر کوٹڈ تکفیریت مچا رہے ہیں، ان کی کتابوں سے سونگھ سونگھ کر “شرک” اور “کفر” نکال رہے ہیں۔ لوگوں نے غامدی صاحب کو امام ابنِ رشد کا پیرو سمجھا تھا، وہ ابنِ تیمیہ کے پیرو تکفیری نکلے۔ امام غزالی کے دور سے شروع ہونے والے علمِ کلام کے نام پر عقائد کی تفتیش کے جس عمل نے مسلمانوں کی گولڈن ایج کو بوکو حرام اور طالبان کے سکول اڑانے تک پہنچایا، غامدی بھی اسی ہزار سالہ تکفیری سلسلے کی کڑی نکلے۔ ہمیں جہالت سے نکل کر وہابیت اور تکفیریت کی اندھی گلی کی طرف جانے کے بجائے تحقیق، تکثیریت اورسائنس کی روشنی کی طرف جانا ہے۔ شرک اور کفر کے ملفوف یا عریاں فتوے سوچ پر پابندیاں لگاتے ہیں اور محققین کو سوچنے سے پہلے ہی اس وسوسے میں مبتلا کر دیتے ہیں کہ نیا خیال کفر نہ ہو۔ امام غزالی اور ابن تیمیہ کی فکری دہشتگردی سے نجات نہ پائی تو اگلے ہزار سال بھی پسماندگی میں گذر جائیں گے۔ غامدی صاحب روشن خیالی کا میک اپ کر کے وہی بات کر رہے ہیں جو ڈاکٹر اسرار احمد اور ذاکر نائک داڑھیاں رکھ کر کرتے رہے۔

‎کسی زمانے میں ذاکر نائک کے سوٹ پہننے، فر فر انگریزی بولنے اور ٹائی لگانے کو ان کے جدید خیالات کا مالک ہونے کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ والدین اپنے بچوں کو ان کے دروس سنوا کر مطمئن ہو جاتے تھے۔ لیکن ڈاکٹر اسرار اور ذاکر نائیک کی بتدریج خالصی اور تکفیری تبلیغ کا نتیجہ جدید تعلیمی اداروں کے نوجوانوں سے دہشتگرد برآمد ہونے میں نکلا، جس کی مثالیں کراچی کے سعد عزیز سے لے کر ڈھاکہ کے روحان امتیاز تک فراواں ہیں۔ آج غامدی صاحب بن ٹھن کر عقلیت پسندی کی اداکاری کرتے ہوئے وہی ابن تیمیہ کا سودا بیچ رہے ہیں، اس برین واشنگ کا نتیجہ چند سالوں میں نمایاں ہو گا جب با ریش یا کلین شیو جہادی ہر اس شخص اور گروہ پر حملہ آور ہونگے جس پر غامدی صاحب نے شرک اور متوازی دین کی مہر لگائی ہو گی۔ کیونکہ بنیادی تکفیریت وہیں کی وہیں ہے، بس لہجہ اور الفاظ مختلف ہیں۔ یہ بھی لوگوں کو وہابیت کے اندھے کنویں میں دھکا دے رہے ہیں۔

‎ہمیں ابنِ رشد اور ابنِ سینا وغیرہ کی سائنسی سوچ اور بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید اور رومی کی تکثیریت اور رواداری کو اپنانا ہو گا۔ عقائد کو خالص کرنے کی لایعنی جستجو میں پڑ کر مسلمان اور کافر بنانا ترک کرنا ہو گا اور دوسروں کا فکری اور مذہبی آزادی کا حق تسلیم کرنا ہو گا۔ تکفیریت اور خالصیت کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنے کا وقت آ گیا ہے۔