معروف صوفی قوال امجد صابری کو کیوں شہید کیا گیا ؟ عامر حسینی

امجد صابری کو شہید ہوئےکئی سال بیت گئے – میں چاہتا ہوں کہ اس سوال کا جواب پھر سے تلاش کروں کہ آخر امجد صابری کو کیوں شہید کیا گیا؟ اس کے مارنے والے پکڑے گئے اور انہوں نے بتایا کہ امجد صابری کو قتل اس لئے کیا گیا کہ وہ شیعہ جیسے نظریات رکھتا تھا، یا علی کا نعرہ لگاتا تھا، شیعہ مسلمانوں سے میل جول تھا ۔سوال یہ جنم لیتا ہے کہ وہ اہل تشیع کے ہاں جاکر کیا کرتا تھا؟ میں نے اس کے سبھی پروگراموں کی ویڈیوز دیکھی جو ابتک مختلف ویب سائٹ پہ موجود ہیں جہاں اس نے اہل سنت اور اہل تشیع کے پروگراموں میں شرکت کی تو وہاں اس نے نعت شریف اور مدح اہل بیت کے کچھ بھی نہیں کیا۔اور اس کی جانب سے مدح رسول اللہ و اہل بیت کو عام کرنا اور اس ذکر کو پھیلانا اس کے تکفیری خارجی قاتلوں اور ان کے مربیوں کو قابل قبول نہ تھا۔امجد صابری کو اس لئے شہید کیا گیا کہ وہ اہل بیت کی محبت سے سرشار تھا اور ذکر علی کرم اللہ وجہہ الکریم و ذکر اہل بیت کو عام کررہا تھا۔

پاکستان کے اندر سلفی اور دیوبندی مکاتب فکر کے اندر سے اٹھنے والے تکفیری نیٹ ورک موجود ہیں جوکہ مسلم تاریخ میں اس ناصبی گروہ کا تسلسل ہیں جن کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور خانواداہ اہل بیت اور اہل تصوف سے شدید نفرت ہے۔اس گروہ کے ہاتھ جب اقتدار آتا ہے تو یہ اپنے درباروں اور اپنے سرکاری تنخواہ دار خطباء و آئمہ سے تخت اور منابر پہ علی المرتضی اور خانوداہ اہل بیت پہ لعنت اور سب و شتم کراتا رہا اور جو بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا محب ہوتا اور ان کا ذکر کرتا یہ اسے دربار میں بلواتے اور اس سے کہتے کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم پہ لعنت کرے، اگر کرتا تو ٹھیک نہ کرتا تو قتل ہوجاتا تھا۔ اس کی داڑھی مونڈھ دی جاتی،سر کے بال صاف کردئے جاتے، کوڑے مارے جاتے، ذبج کردئے جاتے۔

تاریخ میں حجاج بن یوسف کے دور کے کم از کم تین واقعات محفوظ ہیں۔ایک واقعہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خادم خاص قنبر بن ہمدان رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آیا۔کہ حجاج ابن یوسف نے اپنے دربار میں کہا کہ اس کی خواہش ہے کہ وہ ایسے آدمی سے ملے جو سب سے زیادہ علی المرتضی کی صحبت میں رہا ہو اور ان سے محبت کرتا ہو اور وہ اسے قتل کرکے اللہ پاک کی قربت حاصل کرلے۔لوگوں نے قنبر کا نام لیا۔قنبر کو دربار میں بلایا گیا۔حجاج نے اس سے کہا کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم پہ لعنت کرے اور ان سے اظہار برآت کرے جب قنبر نے انکار کیا تو ان کو ذبح کرادیا گیا جیسے آج تکفیری کرتے ہیں۔

دوسرا واقعہ حضرت سعید بن جبیر کے ساتھ ہوا ،کیونکہ بہت سے لوگوں کو حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کے بارے میں معلوم نہیں ہے تو میں یہاں زرا تفصیل سے بیان کروں گا۔سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ مستقل حضرت علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب رضوان اللہ علیھم اجمعین کی صحبت میں رہتے تھے اور یہ ان کے انتہائی مخلص شاگرد تھے۔ان کو اہل سنت اور اہل تشیع دونوں ثقہ ترین تابعی خیال کرتے ہیں۔اور یہ حضرت علی اور خانوداہ اہل بیت کے سیاسی و مذہبی مکتب کے سچے دانشور پیرو تھے۔یہ ابن اشعث کی بنوامیہ کے خلاف بغاوت میں بھی آگے آگے رہے تھے۔جب اس بغاوت کو شکست ہوگئی تو یہ پہلے اصفہان چلے گئے اور اس کے بعد یہ مکّہ آگئے۔یہاں پہ اس زمانے میں عمر بن عبدالعزیز گورنر تھے اور یہ اسی گورنری کے زمانے میں ہی بنوامیہ کی اہل بیت دشمن پالیسی سے متنفر ہوگئے تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے مکّہ کے اندر اموی کے خلاف جید تابعین کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔لیکن جب ان کی جگہ عثمان بن حیان گورنر بنا تو اس نے حجاج نے
سعيد بن جبير وعطاء بن أبي رباح، ومجاهد بن جبر وعمرو بن دينار و ابن حبيب کو قید کرکے کوفہ بھیجنے کو کہا۔ان میں سے عطاء ابن ابی رباح اور عمرو بن دینار کو معافی مل گئی جبکہ تین کوفہ کی جانب روانہ کئے گئے ،ان میں طلق ابن حبیب تو راستے میں فوت ہوگئے جبکہ مجاہد جیل میں ہی رہے جب تک حجاج مر نہ گیا اور سعید بن جبیر کو حجاج کے دربار میں پیش کیا گیا تو ان کے درمیان یہ مکالمہ ہوا
سأل الحجاج عن اسمه فقال : سعيد بن جبير
فقال الحجاج: بل شقيّ بن كسير.
حجاج : کیا نام ہے تمہارا
سعید : سعید بن جبیر
حجاج : بدبخت ابن بدبخت

قال سعيد : أمي أعلم باسمي و اسم أبي .

قال الحجاج: شَقيتَ و شقيتْ اُمك .

قال سعيد : لا يعلم الغيب إلاّ الله .
سعید : میں اپنے اور اپنے والد کے نام سے زیادہ واقف ہوں
حجاج : تو بھی شقی اور تیری ماں بھی
سعید : اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا

ما رأيك في محمد (ص)

قال سعيد: نبي الهدى و إمام الرحمة

قال الحجاج: ما رأيك في علي

قال سعيد: ذهب إلى الله إمام هدى
حجاج : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارے تیری رائے کیا ہے؟
سعید : نبی ہدایت و امام رحمت
حجاج : علی (رضی اللہ عنہ ) کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
حجاج : امام ہدایت اللہ کی جانب چلے گئے

قال الحجاج: ما رأيك فيّ
حجاج : میرے بارے میں کیا کہتا ہے؟

قال سعيد: ظالم تلقى الله بدماء المسلمين
سعید : ظالم اللہ کے سامنے ایسے جائے گا کہ مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے ہوں گے

حاول الحجاج إغراءه بالمال والطرب و لم يفلح بإخراجه عن صوابه.

وهكذا كلما حاول الحجاج أن يُفحم سعي أفحمه بمنطقه الإيماني الرائع إلى أن التفت الحجاج إلى الجلاّد و أشار بقتله .
سعید بن جبیر کو حجاج نے مال اور عیش و عشرت کی لالچ دیکر دھوکہ دینے کی کوشش کی اور اس پہ واضح کیا کہ اس کی صوابدید کے بغیر وہ وہاں سے جانہیں سکے گا اور اس طرح سے جب حجاج نے اپنی سی کوشش کرلی اور رائی برابر بھی سعید بن جبیر اپنے موقف سے نہ ہٹے تو حجاج نے جلاد کی جانب توجہ کی اور ان کے قتل کا اشارہ کیا

قال الحجاج: لأقتلنك قتلة ما قتلها أحد من الناس، فاختر لنفسك

قال سعيد: بل اختر لنفسك أنت، فو الله لا تقتلني قتلة، إلا قتلك الله بمثلها يوم القيامة
حجاج : میں بے شک تمہیں ضرور ایسے قتل کروں گا جیسے لوگوں نے ایسے قتل نہیں کیا ہوگا،تو تیر؛ جان پہ مجھے اختیار ہے
سعید : اگر مجھے ترے نفس پہ قابو ہوتا تو میں خدا کی قسم تجھے قتل نہ کرتا بلکہ اللہ یوم قیامت تمہیں اس کی مثل قتل کرے گا

قال الحجاج: اقتلوه

قال سعيد: وجهت وجهي للذي فطر السموات و الأرض حنيفاً مسلماً و ما أنا من المشركين

قال الحجاج: وجهوه إلى غير القبلة

قال سعيد: فأينماتولوا فثم وجه الله

قال الحجاج: اطرحوه أرضاً
حجاج : اسے قتل کردو
سعید : میں اس کی جانب متوجہ ہوتا ہوں جو فاطر ارض و سماء ہے ،میں دین حنیف کا پیرو مسلم ہوں اور مشرکین میں سے نہیں
حجاج: اس کا چہرہ قبلہ کے مخالف سمت میں کردو
سعید : تو تم جہاں بھی منہ موڑو گے اللہ کا جلوہ دیکھو گے
حجاج : اس کو منہ کے بل زمین پہ گرادو

قال سعيد و هو يبتسم: منها خلقناكم و فيها نعيدكم و منها نخرجكم تارة أخرى

قال الحجاج: أتضحك
سعید مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں : ہم نے تمہیں اسی (زمین) سے پیدا کیا اور اسی میں لوٹائیں گے اور پھر آخر میں اسی سے نکالیں گے
حجاج : تو مسکراتا ہے ؟

قال سعيد: أضحك من حلم الله عليك و جرأتك على الله
سعید : میں اپنے پہ اللہ کے حلم پہ اور تیری اللہ پہ جرات پہ طنزیہ مسکراتا ہوں

قال الحجاج: اذبحوه

قال سعيد: اللهم لا تسلط هذا المجرم على أحد بعدي
حجاج : اسے ذبح کردو
سعید : اے اللہ آج کے بعد اس مجرم کو کسی پہ تسلط نہ دینا
حافظ ابن کثیر ، ابن خلکان اور دیگر علمائے تاریخ نے لکھا کہ اس کے بعد حجاج کی عقل مختل ہوگئی اور امام احمد بن حنبل نے لکھا کہ حجاج کے بڑے جرائم میں سے ایک جرم سعید بن جبیر کو قتل کرنا تھا اور جس سال جبیر شہید ہوئے اسی سال حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔عروہ بن زبیر فوت ہوئے۔حجاج جب سوتا تو اسے سعید بن جبیر نظر آتے اور وہ اس پوچھتے بتا مجھے کیوں قتل کیا ،،حجاج چیخیں مارتا ہوا بیدار ہوجاتا۔

تیسرا واقعہ حضرت عطیہ اوفی تابعی رحمۃ اللہ کا ہے۔یہ فرار ہوکر فارس پہنچے اور وہاں محمد بن قاسم گورنر تھا۔حجاج نے محمد بن قاسم کو لکھا کہ اوفی فرار ہوکر یہاں آیا ہے۔اسے پکڑلو۔اور اسے کہو کہ حضرت علی پہ لعنت کرے ،اگر اس سے انکار کرے تو 400 کوڑے مارو اور اس کی داڑھی اور سر کے بال مونڈھ دو۔محمد بن قاسم نے اسے پکڑا حجاج کا خط سنایا اور اوفی نے جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم پہ لعنت سے انکار کیا تو اسے چار سو کوڑے مارے اور داڑھی و سر کے بال مونڈھ ڈالے۔

امجد صابری کا جرم مدح اہل بیت رضوان اللہ علیھم اجمعین تھا اور وہ انسانوں میں عقیدے اور مذہب کی بنیاد پہ فساد ڈالنے کے خلاف تھا۔اس نےتکفیریوں کی جانب سے شیعہ سنّی فساد کی سازش ناکام بنائی اور اپنے فن کے زریعے سے ان کے درمیان اتحاد کو فروغ دیا۔اور اسے اسی لئے شہید کردیا گیا۔اللہ پاک ان کے درجات بلند کرے اور ان کی قبر کو جنت کا باغ بنائے اور ہمیں اہل بیت اطہار سے محبت کرنے اور آل و اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین