ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا – عامر حسینی

آج ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کا یوم وصال ہے۔اس موقعہ پہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ناصبی اور روافض کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کے دو بڑے مکاتب میں انتشار اور تقسیم کو فروغ دیا جائے۔ ان کی کوشش ہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان اس روز ایسی تلخی کو جنم دیا جائے کہ پاکستان میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم شیعہ-سنّی لڑائی اور خانہ جنگی کے مقصد کو حاصل کرلیا جائے۔

آج کے دن ناصبیت اور مائل بہ خارجیت ٹولہ سوشل میڈیا پہ خصوصی کوشش کررہا ہے کہ وہ اہل سنت کے عوام کو مشتعل کرے اور جتنا جھوٹ وہ اہل تشیع کے ساتھ منسوب کرسکتا ہے کرے تاکہ وہ اس جھوٹ کے سہارے اہل سنت کے نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرسکے اور وہ پاکستان میں اہل تشیع کی نسل کشی اور ان کو سماجی لحاظ سے کمتر بنائے جانے کی کمپئن کو آگے بڑھا سکے۔

ناصبیت اور مائل بہ خارجیت ٹولے کے مشن کو کچھ مائل بہ روافض لوگ تقویت پہنچاتے ہیں اور وہ بھی اشتعال اور تقسیم کو تیز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میری کوشش ہے کہ اس دن کو ہم وحدت اور اتحاد کا موقعہ بنائیں۔ ایسا اتحاد اور وحدت جو کسی افسانہ طرازی پہ مبنی نہ ہو اور نہ ہی تاریخی حقائق کا قتل کرکے کی جائے۔

میرا ہرگز ارادہ اس متنازعہ بات کو آگے لیجانے کا نہیں ہے جو ایک شیعہ عالم کی زبان سے پچھلے دنوں ایک ٹی وی پروگرام کے دوران نکلی جو بعض پہلوؤں سے انصاف اور عدل کے برخلاف تھی۔

میرے مخاطب عام اہل سنت اور اہل تشیع ہیں۔ اور میں ان کے درمیان تقریب اور قربت کی سبیل سے یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔

اس سے پہلے کہ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں شیعہ امامیہ کے علماء کا موقف بیان کروں میں برکت کے لیے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شخصیت بارے کچھ جملے درج کرنا چاہتا ہوں۔

آپ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں۔ام عبداللہ اور الصدیقہ کہہ کر آپ کو پکارا جاتا تھا۔ قران میں سورہ نور میں اللہ نے آپ کی طہارت،عفت اور پاکیزگی کی تصدیق فرمائی۔

آپ مسلم تاریخ کی وہ عظیم شخصیت ہیں جنھوں نے زبانی ‍ قرآن یاد کیا۔ بلکہ آپ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو بھی اچھے سے یاد رکھا اور آپکے مختلف معاملات میں ارشادات کو بھی ذہن نشین کیا۔صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد نے آپ سے قرآن و سنت اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ آپ یتیم بچوں اور بچیوں کی کفالت کرتیں اور ان کی تعلیم و تربیت بھی فرمایا کرتی تھیں۔آپ نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین حضور علیہ الصلوات و التسلیم کے پہلو میں کرنے کی اجازت مرحمت کی تھی جسے مروان اور اس کے ساتھیوں نے نہ ہونے دیا۔دو ہزار دو سو دس احادیث آپ سے مروی ہیں۔ جن میں ڈیڑھ سو سے زائد احادیث بخاری و مسلم میں نقل ہوئی ہیں۔

جلیل القدر تابعی بزرگ حضرت ابو سلمہ اور عطاء بن ابن الرباح کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سب سے زیادہ فقیہ سب سے زیادہ بہتر اور لوگوں میں سب سے زیادہ صائب الرائے تھیں۔ سنت نبوی کا عالم تفقہ فی الدین کا ماہر ،آیات قرآن کے شان نزول اور علم فرائض کا جاننے والا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی اور کو نہیں دیکھا ۔
(مستدرک ،استیعاب ص765،طبقات جلد 8ص5)

میں نے اہل تشیع کے مستند اور جید علماء کی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے حوالے سے آراء کا جائزہ لینے کے ازخود تحقیق کی تو میرے سامنے اہل تشیع کے انتہائی جید علماء کرام کا عربی میں تحریر کردہ انتہائی زبردست رسالہ ہاتھ لگ گیا۔یہ رسالہ آن لائن بھی موجود ہے۔
أمهات المؤمنين أزواج النبي صلى الله عليه وآله عند الشيعة الإمامية
هذه مجموعة من مقالات علماء الشيعة الإمامية في طهارة نساء الأنبياء عليهم السلام
شیعہ امامیہ کے نزدیک امہات المومنین ازواج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
یہ علمائے شیعہ امامیہ کا انبیاء کرام کی عورتوں کی طہارت بارے مقالات کا مجموعہ ہے
ان مقالہ جات میں سب سے پہلا مقالہ علامہ سید عبدالحسین شرف الدین موسوی کا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک ناصبی مولوی موسی جار اللہ نے شیعہ امامیہ پہ کفر کا حکم لگاتے ہوئے اس کی وجہ یہ بیان کی کہ علماء شیعہ امامیہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں اور ان پہ تہمت لگاتے ہیں الخ۔۔۔۔۔شرف الدین موسوی اس الزام کو جھوٹ اور اس اس طرح کے خیال سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اور پھر آگے لکھتے ہیں

والجواب أنها عند الامامية وفي نفس الأمر والواقع أنقى جيبا واطهر ثوبا وأعلى نفسا وأغلى عرضا وامنع صوتا وارفع جنابا وأعز خدرا واسمى مقاما من أن يجوز عليها غير النزاهة أو يمكن في حقها الا العفة والصيانة، وكتب الامامية قديمها وحديثها شاهد عدل بما أقول، على أن أصولهم في عصمة الانبياء تحيل ما بهتها به أهل الافك بتاتا، وقواعدهم تمنع وقوعه عقلا ولذا صرح فقيه الطائفة وثقتها أستاذنا المقدس الشيخ محمد طه النجفي أعلى الله مقامه بما يستقل بحكمه العقل من وجوب نزاهة الأنبياء عن أقل عائبة ولزوم طهارة أعراضهم عن أدنى وصمة فنحن والله لا نحتاج في براءتها الى دليل ولا نجوز عليها ولا على غيرها من أزواج الأنبياء والأوصياء كل ما كان من هذا القبيل.
اس عبارت سے صاف پتا چلتا ہے بقول شرف الدین موسوی کہ امامیہ کے نزدیک جس پہ کتب امامیہ شاہد ہیں ازواج الانبیاء طہارت، عفت، نزاہت واضح ہے اور وہ اسی کے قائل ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ عصمت انبیاء کے بارے میں شیعہ امامیہ کا جو اصول ہے وہ اس بات کو محال ٹھہراتا ہے جس کے قائل اہل افک تھے۔ان کے قواعد اس طرح کی چیز کے عقلی طور پہ بھی وقوع پذیر ہونے کو ناممکن بتاتے ہیں۔اور موسوی اپنے استاد شیخ محمد طہ نجفی کا قول نقل کرتے ہیں جس کے مطابق جب نزاہت الانبیاء عقل کی رو سے مستقل حکم کا درجہ رکھتی ہےتو اس سے ان کی ازواج کی طہارت و پاکیزگی بھی لازم و ملزوم ٹھہرتی ہے۔

اس سے آگے مقالہ ہے سید محمد حسین طباطبائی کا
لعلامة السيد محمد حسين الطباطبايي
تفسير الميزان ج15، تفسير سورة النور
طهارة نساء النبي ثابتة بالدليل العقلي والقول بشك النبي صلى الله عليه وآله بأهله غير صحيح
طہارت نساء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دلیل عقلی سے ثابت ہے اور جو قول نبی اکرم صلی اللہ علیہ واۂہ وسلم سے ان کے اہل خانہ کے بارے میں شک کا بتاتا ہے وہ غیر صحیح ہے۔
اس سے آگے علامہ طباطبائی اس طرح کے اقوال کے غلط ہونے پہ پوری تقریر کرتے ہیں۔اور پھر ایک آیت کا حوالہ دیکر فیصلہ صادر کرتے ہیں
فمن لوازم الإيمان حسن الظن بالمؤمنين، والنبي صلى الله عليه وآله وسلم أحق من يتصف بذلك ويتحرز من سوء الظن الذي من الإثم وله مقام النبوة والعصمة الإلهية.
لوازم ایمان میں ہے کہ مومنین بارے اچھا گمان رکھا جائے۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو سب سے زیادہ اچھا گمان رکھنے والوں میں ہیں اور ان کے بارے میں برے ظن کا خیال بھی نہ لایا جائے جبکہ وہ مقام نبوت پہ فائز ہیں اور اللہ پاک کی طرف سے عصمت کے وصف سے متصف ہیں۔

علامہ کمال حیدری کہتے ہیں
أننا نعتقد اعتقادا كاملاً، وليس هذا اعتقادي أنا فقط، بل كل علماء مدرسة أهل البيت يعتقدون أن القرآن الكريم عندما قال “النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ” أن جميع أزواج النبي إنما هن أمهات المؤمنين، نعم، هذا الحكم التشريعي وهذا الحكم الفقهي الذي صدر في الآيات المباركة
بے شک ہمارا اعتقاد کامل ہے اور یہ میرا ہی نہیں بلکہ مدرسہ اہل بیت اطہار کا اعتقاد ہے کہ قرآن کریم میں جو کہا گیا کہ “نبی کریم مومنین کی جانوں سے بھی زیادہ مقدم ہیں اور ان کی ازواج ان کی مائیں ہیں” اس کی رو سے نبی کریم کی جتنی ازواج ہیں وہ مومنوں کی مائیں ہیں۔ ہاں یہ حکم شرعی بھی ہے اور حکم فقہی بھی ہے جو آیات مبارکہ سے نکلا ہے۔
ان مقالات سے یہ بات بہت واضح ہوجاتی ہے کہ اہل تشیع کے علماء کے نزدیک حضرت عائشہ صدیقہ سمیت تمام ازواج نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مومنین کی مائیں ہیں اور ان کی عفت و صیانت و طہارت ازروئے عقل و شرع و فقہ ظاہر و باہر ہے۔علماء اہل تشیع نے جہاں پہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کا جنگ جمل میں شریک ہونے سے بحث کی ہے وہاں پہ یہ بات صاف لکھی ہے کہ اگرچہ حضرت علی اس معاملے میں حق پہ تھے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے خطا صادر ہوئی لیکن وہ اپنے اس فعل پہ ندامت کا اظہار آخری دم تک کرتی رہیں اور وہ اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے یہ نتیجہ نکالتے ہیں
وبهذا لا يمكن لنا أن نترضّى عليها ولا أن نلعنها، ولكن لنا أن لا نقتدي بها ولا نُبارك أعمالها، ونتحدّث بكلّ ذلك لتوضيح الحقيقة إلى النّاس، عسى أن يهتدوا لطريق الحقّ.
اور اس (دلائل) سے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم ان پہ اعتراض کریں یا لعن (العیاذ باللہ) کریں۔ اور نہ ہی ہم ان کے ان اقدامات کو ٹھیک کہیں گے۔اور لوگوں پہ حقیقت کی وضاحت کے لیے ان کو بیان کریں گے تاکہ لوگ حق کے راستے پہ چلیں۔
جمہور اہلسنت کا بھی جنگ جمل میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شرکت بارے اسی طرح کا موقف ہ