جاوید احمد غامدی، پشتون ثقافت اور طالبان

جاويد احمد غامدی کا تعلق مذہب کے اس طبقے سے ہے جو جديد دنيا کے اکثر مقبول رجحانات کو يا تو اسلام سے ماخوذ سمجهتا ہے اور يا قرآنی متون کوکھینچ تان کر ان کی مطابقت جديد دنيا کے کچھ مقبول رويوں، تحريکوں اور نظريوں سے بنانے کی سعی کرتا ہے. غامدی صاحب کا اس کیمپ کے ساتھ تعلق جماعتِ اسلامی کی رکنيت حاصل کرکے ہی پيدا ہوا تھا، اس کے بعد ابن تیمیہ، امین احسن اصلاحی اور اس طرز کے خیالات سے متاثر ہوۓ – اب اپنے آپ کو خالص قسم کا صحيح مسلمان سمجھتے ہيں
مذہب ميں’ معتدل’ کا مطلب يہ ہے کہ جب کوئی دہشت گردی کی زياده جذباتی حمايت نہيں کرتا ہے – ایک تو ہمارے لوگ ان مُلاؤں سے زياده تنگ آچکے ہيں جو ہر گلی کوچے ميں تکفیری نفرت، دشمنی، قتل و قتال اور خونريزی کی تبليغ برملا کرتے نظر آتے ہيں اور دوسرا يہ کہ سماجی علوم ميں ان کا مطالعہ ايک آدھ اردو کتاب سے بڑھ کر کچھ نہيں ہوتا اسی وجہ سے وه غامدی برانڈ اسلام کے جلد ہی شيدائی بن جاتے ہيں. غامدی صاحب کی دانشوری ان لوگوں کو اپيل کرسکتی ہے جو اسلام کو ملائيت اور جديديت کے اميزے ميں فالو کرنا چاہتے ہيں.

سماء ٹی وی کے ساتھ ايک انٹرويو ميں وزيرستان ميں ۲۳ پوليس اہلکاروں کے کلے گاٹنے کے واقعے اور طالبان کی شريعت پر تبصره کرتے ہوئے غامدی صاحب نے کہا کہ قبائلی تمدن ميں گلا کاٹنا ايک معمولی بات ہے. قبائلی تمدن ميں انتقام کو بڑی اہميت دی جاتی ہے قبائلی تمدن ميں لوگ چاہتے ہيں کہ ان کی دہشت دوسروں پہ طاری ہوجائے. قيام پاکستان کے بعد قبائلی علاقے کو جديد رياست کا حصہ نہ بننے سے يہ مسئلہ پيدا ہوا ہے

غامدی صاحب کی نظر ميں جو کام ريڈ انڈين اورقديم آسٹریلین قبائل کے ساتھ ہوا وہی فاٹا کے ساتھ بهی اگر ہوتا تو يہ موجوده دہشت گردی دیکھنے کو نہ ملتی . قبائلی علا‎قوں ميں مذہب کی ايک خاص تعبير ہوتی ہے. وہاں پہ سر کاٹنا، لوگوں کو ذبح کرنا اور سنگسار کرنا ايک بہت عام سی بات ہوتی ہے. غامدی صاحب نے خاتون اينکرپرسن کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ ہم اور آپ کو اگر ايک مرغی ذبح کرنی ہو تو ايک تردد محسوس کريں گے اس لئے کہ ہماری پرورش اور تربيت مختلف ہوئی ہے. ليکن ايک سات سالہ قبائلی بچہ بعض اوقات ہم اور آپ کے سامنے ايک آدمی کو ذبح کرينگے ان کو کچھ فرق نہيں پڑے گا، وہاں يہ ايک معمول کی بات ہے، کلچر کا حصہ ہے. غامدی صاحب کے نزديک طالبان باغی ہيں انہوں نے رياست کو چيلنج کيا ہے. ان کے ساتھ معاملہ کرنے کيلئے آپ کو انہيں سمجهنا پڑے گا. افغانستان ميں اگر آپ لوگوں کو لاہور اور کراچی يا لندن اور نيويارک کے لوگ سمجھ کرکےمعاملہ کرينگے تو آپ سمجھ ہی نہيں سکتے کہ آپ کيا کرتے ہيں.

ميں غامدی صاحب کے اس انٹرويو ميں موجود چند تاويلات، مبالغوں اور گمرائيوں کا تجزيہ کرنا چاہوں گا.
غامدی صاحب يہ ثابت کرنا چاہتے ہيں کہ اسلام تو امن ، آشتی اور انسان دوستی کا مذہب ہے. طالبان جو کچھ کرتے ہيں وه ان کے قبائلی تمدن کا حصہ ہے.
وه قبائلی تمدن کی اس يورپی معتصابانہ تشريح پہ يقين رکهتے ہيں جس کے مطابق ٹرائبل کا مطلب تہذيب سے دوری، پسماندگی، قتل و قتال اور بربريت تھا. غامدی صاحب تاريخی اور سياسی زاوئيوں پہ غور کرنے کی بجائے قبائلی علاقوں کا ايک معاشرتی اور ثقافتی تجزيہ اس عام معتصبانہ اورينٹلسٹ اور يوروسينٹرک تناظر سے کرنا چاہتے ہيں جونوآبادياتی دور ميں تو بڑا مقبول تها ليکن اب يورپ ميں بهی اس کی نہ صرف کوئی افاديت باقی نہيں رہی ہے بلکہ وہاں ہی پہ اس کے خلاف بڑے موثر تنقيدی تناظربهی ابهر کر سامنے آئے ہيں.
غامدی صاحب ريڈ انڈين اور اسٹرالين قبائل پر بيرونی حملوں کی نہ صرف تعريف کرتے ہيں بلکہ اس کی پيروی کرنے کی تلقين بھی کرتے ہيں.
وه قبائلی کلچر کی تشريح کو جنرلائز کرکے يہ سمجهتے ہيں کہ جہاں پہ بھی کوئی قبائلی معاشره ہوگا وہاں پہ سر کاٹے جائينگے
غامدی صاحب کی نظر ميں قبائلی علاقوں ميں جاری تکفیری خارجی دہشت گردی ميں رياست کا اس سے بڑھ کر کوئی کردار نہيں کہ اس نے کيوں ابھی تک ان علاقوں کو اپنے باقاعده نظام کا حصہ نہيں بنايا. وه يہ نہيں بتاتے کہ کيا وجہ ہے کہ رياست ابھی تک قبائلی علاقوں کو اپنے باقاعده نظام کا حصہ بنانے سے انکار کرتی ہے؟
غامدی صاحب نے فاٹا ميں ہزاروں کی تعداد ميں موجود ازبک، تاجک، چيچن، عرب اور پنجابی تکفیری دہشت گردوں کا ذکر اس وجہ سے نہيں کيا ہے کہ اس سے پھر ان کے قبائلی تمدن والے مفروضے کو نقصان پہنچتا ہے
غامدی صاحب پشتون کلچر کے بارے ميں کچھ نہيں جانتے. ميں جاننا چاہتا ہوں کہ انہوں نے ڈيورينڈ لائن کی دونوں طرف موجود قبائلی علاقوں کے کتنے دورے کيے ہيں اور قبائلی تمدن کے حوالے سے جو تاويلات انہوں نے پيش کيے ہيں ان کا کوئی ماخذ ہے بھی؟
غامدی صاحب سر کاٹنا قبائلی تمدن کا ايک حصہ اور ايک عام سی بات سمجهتے ہيں. يہ ايک انتہائی گمراکن بات ہے. ہم جو کہ خود پشتون قبائلی معاشرے کے رہنے والے ہيں بچپن ميں والدين نے بتايا تھا کہ سر کو گالی نہيں دينا اس لئے کہ سر کوالله تعالی خود بناتا ہے اور باقی بدن کو فرشتے. ميں نے اپنی زندگی ميں کبهی پورے پشتون وطن ميں طالبان کی دہشت گردی کے واقعات کے علاوه کسی ايسے واقعے کا نہيں سنا ہے جس ميں انسانوں کے سر کاٹے گئے ہوں
سوات جو کہ پاکستان سے پہلے اپنی رياست کا ايک بھرپور تجربہ رکهتا ہے اور اب پاکستان کے باقاعده رياستی نظام کا حصہ بهی ہے، خواندگی کی شرح بھی کافی زياده ہے. غامدی صاحب قبائلی علاقوں اور سوات کے طالبان ميں کتنا فرق محسوس کرتے ہيں؟ طالبان شاہی ميں سر کاٹنے کے واقعات بھی دونوں جگہوں پہ ہوئے ہيں.
غامدی صاحب قبائلی علاقوں ميں انتقام کو کچھ اس طرح کا معاملہ سمجهتے ہيں جس ميں لوگ ايک دوسرے کو قتل کرنے کے بغير کوئی کام ہی نہيں جانتے ہوں گے. غامدی يہ نہيں جانتے کہ وہاں پہ انتقام کا کيا خدوخال اور کيا طريقائے کار ہيں؟ وه اگر غيررياستی معاشروں کے سياسی نظاموں کے بارے ميں کچھ جانتے يا کم از کم افريقی معاشروں کے بارے ميں کچھ پڑهتے تو ان کو انتقام کے معاملے ميں اتنی منفيت کبھی نظر نہيں آتی. انتقام سے بچنے کيلئے پشتون کلچر ميں کشيدگی کو ختم کرنے يا مسائل کو حل کرنے کا جو ميکانيزم ہے غامدی اس کے بار ے ميں کچھ نہيں جانتے. غامدی جوکہ دیوبندی طالبان اور ان کے لشکر جھنگوی حلیفوں کو پشتون قبائلی لوگ سمجھتے ہيں ہميں يہ نہيں بتاتے کہ ان طالبان اور رياست کی دشمنی کيا ہے؟ اس رياست نے تو طالبان کا کوئی ايسا نقصان نہيں کيا جس کا طالبان انتقام ليتے ہيں اور ايف سی کے اہلکاروں کو ذبح کرتے ہيں. طالبان قيادت کو تو ڈرون حملوں ميں مار پڑی ہے اس کے علاوه، يہ جو شہروں ميں خودکش حملے اور بم دهماکے ہورہے ہيں يہ کس سے انتقام ليا جارہا ہے؟
غامدی صاحب نے اپنے اس انٹرويو ميں پنجابی کلچر کی تعريف کی ہے کہ اگران کو ايک مرغی بھی ذبح کرنی ہو تو وه ہچکچائينگے. ليکن يہ جو غيرمسلموں کی بستيوں کی بستياں اجاڑی جاتی ہيں اس کی ہم کيا تشريح کرينگے؟ اقليتوں پہ لوگ کہاں ايک ہجوم کی شکل ميں حملہ آور ہوتے ہيں؟ سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور پنجابی طالبان کون ہيں اور کيسے پيدا ہوئے؟
غامدی صاحب نے اس خطے ميں دہشت گردی کی تمام تاريخ، بين الاقوامی، مذہبی، سياسی اور رياستی وجوہات کو نظر انداز کرکے قبائلی تمدن کو اس لئے ذمہ دار ٹھہرايا ہے کہ اسی ايک طريقے سے پاکستانی یا عالمی اسٹبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کی جاسکتی ہے.